خواتین پر جنسی دہشت گردی، اور دو اُنگشت کا طِبّی معائینہ

منیر سامی

ہم اس تحریر کے شروع ہی میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کی مُحرّک پاکستان میں انسانی حقوق کی اہم قانون دان زینبؔ ملک ہیں جنہوں نے اس موضوع پر پاکستان کے موقر انگریزی جریدے ڈان میں ایک رائے تحریر کی ہے۔ یہ موضوع حساس اور اہم ہے ,ضروری ہے اس لیے ضروری ہے کہ دور دور تک اردو قارئین تک اس مسئلہ کی باز گشت پہنچے۔

خواتین کے خلاف طرح طرح کی زیادتیاں اور ان کے ساتھ جنسی تشدد دنیا کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں مغربی مہذب دنیا میں یہ مسئلہ شدت سے اس لیے اجاگر ہوا ہے کہ وہاں باہمت خواتین نے اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا کھلے بندوں اعتراف کیا ہے اور زیادتی کرنے والوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس کے باوجودخود مغرب میں یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں بھی اب تک خواتین پر اس ضمن میں اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ پدرانہ معاشروں کے مردوں کے زیرِ اثرنظاموں میں خواتین کی اکثریت شرم اور جھجھک کی بناپر اپنے ساتھ زیادتیوں کی شکایت بھی نہیں کرتی۔

ابھی حال ہی میں کینیڈا کے ایک موقر جریدے نے ایک تحقیق کے بعد انکشاف کیا کہ خود کینیڈابھر میں قانون نافذکرنے والے ادارے، اکثر خواتین کی شکایتوں کو مکمل تفتیش کے بغیر ہی نا قابلِ ثبوت قرار دے کر داخلِ دفتر کردیتے ہیں۔یہاں بھی عدالتوں کے جج ، زنا بالجبر اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے مقدموں میں خود خواتین پر طنز کرتے ہیں ، اور انہیں ہی موردِ الزام قرار دیتے ہیں۔

اس ضمن میں رائے عامہ ، صحافیوں ، اور عمل پرستوں کے دباؤ پر اب نظام میں تبدیلی کی کوشش ہو رہی ہے۔ پولیس، ڈاکٹروں، اور ججوں کی تربیت کے انتظام کیے جارہے ہیں تاکہ وہ نسل در نسل سماجی، روایتی، اور مذہبی طور پر اپنائی ہوئی عادتوں کو ترک کریں ، اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی سنجیدہ اور غیرجانب دار تفتیش کے بعد انہیں معروضی انصاف فراہم کریں۔

حال ہی میں کینیڈا کا ایک نہایت تلخ واقعہ یہ ہے کہ ایک جج نے زنا بالجبر کے مقدمہ کی سماعت میں مدعی خاتون کی شکایت سنتے وقت، یہ تبصرہ کیا کہ، ’’ اگر آپ نے اپنی ٹانگیں مضبوطی سے بند کی ہوتیں ، تو یہ واقعہ کیوں پیش آتا؟ ‘‘۔ اس پر ہاہا کار مچی اور جج صاحب کو معطل کرکے ان کو تربیت پر مجبور کیا گیا۔جج ’روبنؔ کیمپ‘، یہاں کی ایک اعلیٰ عدالت کے جج تھے۔ کینیڈا کی عدالتی کونسل نے انہیں عدالت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکہ اور کینیڈامیں جنسی زیادتیوں کے خلاف عمل پرستی میں سفید فام خواتین پیش پیش ہیں اور ان ہی کے معاملات کو میڈیا میں سرِ فہرست جگہ مل رہی ۔ ان ممالک کی غیر سفید فام اور بالخصوص اولین Aboriginal یا Native خواتین کے معاملات اب بھی توجہ طلب ہیں۔

عالمی صورتِ حال یہ ہے کہ تیسری دنیا یا پسماندہ ممالک میں خواتین اب بھی زیادتیاں سہنے پر مجبور ہیں۔ آپ کو بھارت میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر ، اور خود پاکستان میں بھی ایسے ہی واقعات کی روح فرسا خبریں تو یاد ہوں گی۔ اور یہ بھی یاد ہوگا کہ بعض اوقات مظلوم خواتین کے ساتھ زنا بالجبر ، جرگوں کے حکم پر کیا گیا۔ ہمار ا پدرانہ نظام جس میں بسا اوقات مذہبی تاویلات پیش پیش ہوتی ہیں، ان زیادتیوں کو پوشیدہ رکھتا ہے ، اور خواتین کو دبے پِسے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ اب سے کچھ ہفتہ پہلے کچھ جرات مند پاکستانی خواتین صحافیوں نے زیادتی کے اس ظالمانہ نظام پر اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے تناظر میں توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔

پسماندہ ممالک میں خواتین کو مغرب سے کہیں زیادہ زیادتیاں جھیلنا پڑتی ہیں۔ اول تو وہ شکایت ہی نہیں کر پاتیں ، اگر مجبوراً شکایت پولیس میں درج بھی کروائی جاسکے تو انہیں شرمندگی کی حد وں تک بھیانک امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں زینبؔ ملک نے جس بھیانک شہادت پر توجہ دلائی ہے ، وہ’دوانگشت کا معائینہ ہے‘۔ یہ ایک طبی تفتیشی ٹسٹ ہے جس میں مظلوم شکایت کنندہ کے اندامِ نہانی میں دو انگلیاں داخل کی جاتی ہیں تاکہ اندازہ لگائے جائے کہ وہ جنسی عمل کی عادی تو نہیں تھیں۔

یہ ایک قانونی ضرورت نہیں بلکہ ایک ایسا طبی معائنہ ہے جو برطانوی دورِ حکومت سے جاری ہے، اور بسا اوقات عدالتیں اس کی بنیاد پرمظلوم خواتین کی شکایتیں خارج کر دیتی ہیں، یا خود انہیں موردِ الزام قرار دیتی ہیں۔ پاکستان میں اعلیٰ عدالتیں اور وفاقی شرعی عدالت اس امتحان کے نتیجے میں بعض مقدمات خارج کر چکی ہیں۔ ایسے فیصلوں کے بعد مظلوم خواتین جن میں اکثر کمر عمر کنواریاں ہوتی ہیں، اور بھی زیادتیاں سہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ دنیا بھر میں یہ شہادت طبی اعتبار سے ناقص یا کمزور قرار دی جارہی ہے۔ کینیڈا کے صوبے ’ کیوبک ‘ میں زنا بالجبر کے معاملات میں ڈاکٹروں کی اس قسم کے طبی معائنہ میں شرکت ممنوع قراردی گئی ہے۔ اسی طرح اب برطانیہ کی سابق نو آبادیوں میں بھی یہ شہادت ترک کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں بھارت اور بنگلہ دیش کا ذکر ضروری ہے، جہاں یہ شہادت ترک کی گئی ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں اس قسم کے طبی معائنہ کو خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا ہے۔ اسی طرح ایک اہم مسلم ملک ملیشیا میں بھی یہ قبیح امتحان ترک کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی قانون دان زینب ملک نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعزیری قوانین میں ترمیم کرکے اس قسم کے امتحانات کو ترک کیا جائے اور ایسے قوانین نافذ کیے جائیں جن سے مظلوم خواتین کو واقعی انصاف مل سکے۔ گزشتہ کئی سالوںسے پاکستان رفتہ رفتہ خواتین کے حقوق کے قوانین بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم سب کو چاہیئے کہ زینب ملک کے مطالبے کی حمایت کریں تاکہ ہماری خواتین اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی شکایت جرات اور ہمت سے کر سکیں۔

2 Comments