جرمنی کی وفاقی انتظامی عدالت کے مطابق ملک میں عوامی مقامات پر لوگوں میں مفت قرآن بانٹنے والی سلفی مسلمانوں کی تنظیم ’سچا مذہب‘ پر عائد پابندی آئندہ بھی برقرار رہے گی۔ یہ حکم وفاقی جرمن انتظامی عدالت نے سنایا۔
جرمن دارالحکومت برلن سے منگل انیس دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وفاقی انتظامی عدالت نے اس اپیل کی سماعت آج منگل کے روز ہی شروع کی تھی اور کچھ ہی دیر بعد عدالت اس فیصلے پر پہنچی کہ اس پابندی کو منسوخ نہیں کیا جائے گا۔
پر پابندی کی توثیق کر دی، اس کا نام جرمن زبان میں وہیر ریلیجن یا ’سچا مذہب‘ ہے۔ اس تنظیم کے ارکان ملک کے کئی شہروں میں عام لوگوں میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے جرمن زبان میں ترجمے کے ساتھ شائع کیے گئے نسخے مفت تقسیم کیا کرتے تھے۔
’سچا مذہب‘ کو جرمن وزارت داخلہ نے گزشتہ برس نومبر میں اس شبے کے بعد ممنوع قرار دے دیا تھا کہ یہ مسلم گروپ ممکنہ طور پر دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے لیے جرمنی سے نئے مسلمانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
تب پورے ملک میں اس تنظیم کے ارکان کے خلاف پولیس نے مختلف شہروں اور قصبوں میں قریب 190 چھاپے مارے تھے۔ ان چھاپوں کے بعد وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا تھا، ”یہ گروپ اسلام کی تبلیغ و تشہیر کے عمل کو نفرت انگیز پیغامات اور مبینہ سازشوں سے متعلق نظریات کو پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا تھا‘‘۔
سچا مذہب‘ کی طرف سے اپیل دو درخواست دہندگان نے دائر کی تھی۔ ان میں سے ایک اس مسلم تنظیم کا فلسطینی نژاد سربراہ ابراہیم ابو ناجی تھا۔ عدالتی کارروائی کے آغاز پر ابو ناجی کے وکلاء کا موقف یہ تھا کہ جس تنظیم پر پابندی لگاتے ہوئے اسے عوام میں قرآن تقسیم کرنے سے روکا گیا ہے، قانوناﹰ اس نام کی کسی تنظیم کا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
پھر جب عدالتی کارروائی کو شروع ہوئے ابھی صرف آٹھ منٹ ہی ہوئے تھے، تو عدالت کو غیر متوقع طور پر ایک فیکس موصول ہوئی، جس میں درخواست دہندہ کے وکلاء کی طرف سے کہا گیا کہ ابو ناجی اور ان کے ساتھی نے اپنی اپیل واپس لے لی ہے۔ درخواست دہندگان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے اپنی اپیل واپس کیوں لی۔
اس پر عدالت نے سماعت مکمل کیے بغیر کہا کہ جب یہ اپیل ہی واپس لے لی گئی ہے، تو وہ پابندی اپنی جگہ برقرار رہے گی، جو ابتدائی فیصلے میں ’سچا مذہب‘ پر لگائی گئی تھی۔ لیکن ساتھ ہی عدالت کے جج اُووے ڈیٹمار بیرلٹ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے بطور جج ایسا کوئی واقعہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کسی مقدمے میں سماعت کے شروع کے چند لمحات میں ہی کیس واپس لے لیا گیا ہو۔
یاد رہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے اپنے آپ کو سچے مذہب کا پیروکار سمجھتے ہیں جبکہ اپنے علاوہ تمام دوسرے فرقوں کو کافر سمجھتے ہیں۔۔ لہذا تمام مسلمان جب اپنے اپنے سچے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں تو ایک دوسرے کی گردنیں اتار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان یورپی ممالک کے سیکولرازم کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور تبلیغ کرنے کے حق کی آڑ میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دوسری جانب مقامی رسوم و رواج کو غیر اسلامی قرار دے کر ان سے نفرت کا اظہار کرتےہیں۔
DW/News Desk