اوائل نومبر میں، میں دلی میں قائم انڈین نیشنل میوزیم گیا تو آثارِ قدیمہ اور مقامی تاریخ و ثقافت کے وہی نمونے نظر آئے جو ایسی جگہوں پر عموماً نظر آتے۔
البتہ جب میں دوسری منزل پر واقع ‘نیوی گیلری‘ میں داخل ہوا تو سامانِ حرب کے نمونوں کے درمیان ایک دیوار پر سجے برونز رِیلیف یعنی کانسی میں ڈھلی ایک تصویر دیکھ کر میرے قدم جم کر رہ گئے۔ہندوستان کے میوزیم میں سجی یہ تصویر پاک فوج کی کارگردگی کی خاموش کہانی سناتی ہے۔
یہ تصویر تو پہلے بھی روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر نظر سے کئی بار گذری تھی۔ مگر اسے ایک پیکر کی صورت میں دیکھنے کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا۔
تصویر دیکھ کر میری نظروں میں سولہ دسمبر سنہ 1971 کا وہ منظر گھومنے لگا جب کراچی کی ایک غریب بستی عقب جیکب لائن میں سب کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔
ان دنوں وہاں بنگالیوں سمیت متحدہ پاکستان کی تمام نسلی اکائیوں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کے اس وقت بنگالیوں کی اندرونی کیفیت کیا رہی ہوگی۔
میں نو سال کا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ گلی محلے کے بڑے باقاعدگی سے ریڈیو پاکستان کے خصوصی جنگی بلیٹن اور بی بی سی اردو کا سیربین سنا کرتے تھے۔
اُس دن سقوطِ ڈھاکا کی خبر آئی تھی۔ پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ جبکہ پاکستانی پریس سب اچھا کی خبریں دے رہا تھا۔
بنگلہ دیش کے عوام آج بھی پاکستانی فوج کے مظالم کی داستانیں سناتے ہیں ۔ پاک فوج بنگلہ دیش میں سنگین جرائم میں ملوث رہی تھی جس میں بنگالی خواتین کی آبروریزی اور بنگالی دانشوروں کا قتل عام تھا۔ ان جرائم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی شامل تھی جس کے رہنماؤں پر ان جرائم کا مقدمہ چل رہا ہے اور کچھ کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں۔
کانسی کے مذکورہ پیکر میں جو لمحہ قید ہے اس میں مشرقی پاکستان میں اِیسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل اے اے خان نیازی بھارتی لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ‘انسٹرومنٹ آف سرینڈر‘ یعنی شکست کی دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں۔
غالباً ‘بنگلہ دیش‘ کے الفاظ لیے یہ پہلی دستاویز ہے جس پر کسی پاکستانی اتھارٹی کے دستخط ہیں۔پاکستانی حکومت نے اس شرمناک شکست کی وجوہات جاننے کے لیے حمود الرحمان کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آسکی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاک فوج نے اس شکست سے کچھ سبق حاصل کیا؟
بلوچستان کے عوام آج انہی مظالم کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے جوان آج بلوچ عوام کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو بنگالی دانشوروں کے ساتھ کر چکے ہیں ۔ بلوچ نوجوانوں، بچوں حتیٰ کہ خواتین کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ہی ملتی ہیں۔
BBC/News Desk
One Comment