مہنگی کرامات

سبط حسن

شہر سے باہر نکل جائیں تو دیہات نظر آنے لگتے تھے۔ دیہات کے درمیان چند کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور ان کے درمیان ایک چرچ تھا۔ دیہات میں رہنے والوں کی اکثریت عیسائیوں کی تھی۔ وہ اس چر چ میں، ہر اتوار کوآکر عبادت کرتے تھے۔ چرچ میں دوسرے لوگوں کے علاوہ ایک بڑا پادری تھا۔ یہ لوگ چرچ کی دیکھ بھال اور عبادات کا انتظام کرتے تھے۔ چرچ کی عمارت لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ عمارت کے اوپر ایک بڑی صلیب لگی ہوئی تھی۔ دن میں یہ صلیب دور سے ہی نظر آجاتی تھی۔ البتہ رات میں اس پر لگی قمقموں سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ چرچ کس طرف ہے۔ چرچ کے سامنے والے حصے پر بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اور انہوں نے چرچ کے زیادہ حصے کواپنی چھوٹی چھوٹی پتیوں سے ڈھانپ لیا تھا۔ چرچ کے پچھواڑے میں ایک بڑا صحن تھا، جس کے آخری کونوں میں چرچ میں کام کرنے والوں کے چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ اس صحن میں ایسے درخت اُگے تھے جو عام طور پر اس علاقے میں نہیں لگائے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سو سال پہلے، اس چرچ میں انگریزی پادری ہوتے تھے۔ انہوں نے ہی مقامی لوگوں کو عیسائی بنایا۔ 

(2)

سورج نکلنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ راکھ جیسی سفیدی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ چرچ کے پچھواڑے میں بڑے بڑے درختوں پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں چڑیاں مل کر ، مسلسل شور برپا کر رہی تھیں ۔ اس شور کے پس منظر سے بلبلوں اور کبھی کبھار کووّں کی آوازیں نمایاں محسوس ہوتیں۔ چرچ میں ہار سنگھار کے پھولوں کی خوشبو پھیلی تھی۔ بھیگی بھیگی ٹھنڈک میں، گھاس پر گرے ہار سنگھار کے پھولوں نے جیسے گھاس کی بچھی چادر پر پھول کاڑھ دیے تھے۔ چرچ کے پچھواڑے سے مرغ کی اذان کی مسلسل آواز آرہی تھی۔ وہ دراصل قریب کے کسی دیہات سے آنے والی مرغ کی اذان کا جواب دے رہا تھا۔
چرچ کے پادری جو ایک بزرگ تھے، خاکستری رنگ کی لمبی عباپہنے، چرچ کے سامنے والے دروازے کے ساتھ اُگے بوتل نماتنے والے پام کو پانی دے رہے تھے۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ وہ سورج نکلنے تک باغبانی والے چھوٹے سے فوارے کے ساتھ پودوں کو پانی دیتے رہتے تھے۔ اس دوران انہیں ہمیشہ سورج کے نکلنے کا انتظار رہتا۔ سور ج کی پہلی شوخ کرنیں جب پام کے اوس میں بھیگے پتوں پر پڑتیں تو جیسے ایک جادوئی سا ماحول بن جاتا۔ بھیگے پتوں پر اٹکے شبنم کے قطرے سورج کی کرنیں پڑتے ہی آپس میں مل کر روشنی کا ایک سنہری جال سا بنا دیتے۔ یہ سب دیکھ کر پادری کے دل میں گدگدی سی ہوتی اور وہ چھوٹے بچوں کی طرح شرارت کرتے ہوئے، پام کے پتوں کو ہاتھ کی ہلکی سی جنبش سے جھٹک دیتے۔۔۔ پتوں پر اٹکے شبنم کے قطرے ان کی عبا پر گر پڑتے۔ یہ وہ لمحے تھے جو انہیں سب سے زیادہ عزیز تھے۔۔۔گیان سے بھی بڑھ کر۔
’’
فادر، ہمیں بچا لیجئے۔۔۔ میری بیوی مرنے والی ہے۔۔۔ مرنے سے پہلے اسے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘
پادری رک گئے۔ واپس آئے اور ان دیہاتیوں کے برابر آ کھڑے ہوئے۔ پوچھنے لگے:
’’
وہ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘
’’
قریب کے ایک گاؤں میں۔۔۔ آپ کو جانے میں کوئی تکلیف نہ ہو گی۔۔۔ سواریاں بھی ساتھ لائے ہیں۔۔۔‘‘ ایک دیہاتی نے گدھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’
اچھا میرے بیٹو، ‘‘ پادری نے کہا۔ ’’بس تھوڑا سا رک جاؤ۔ میں اپنے ساتھیوں کو بتا کر آتا ہوں۔ پھر چلتے ہیں۔‘‘
’’
وقت بہت کم ہے۔‘‘ دیہاتی نے کہا۔ ’’عورت بس آخری سانس لے رہی ہے۔ اگر آپ اس کا خیال کریں تو فوراً چلیے۔ جگہ زیادہ دور نہیں۔ دوپہر تک ہم لوٹ آئیں گے۔۔۔‘‘
’’
اچھا۔ اگر ایسی بات ہے تو فوراً چل پڑتے ہیں۔۔۔‘‘ پادری نے گرم جوشی سے کہا اور چرچ کے دروازے سے باہر نکل آئے۔ دیہاتیوں نے پادری کو ایک گدھے پر سوار کیا۔ دوسرے گدھے پر مرنے کے قریب عورت کا شوہر بیٹھ گیا۔ دونوں بڑی تیزی سے دیہات کی طرف روانہ ہو گئے۔

(3)

سفر کئی گھنٹے جاری رہا۔ کئی گاؤں گزر گئے۔ پادری بار بار پوچھتے کہ وہ کدھر جا رہے ہیں۔ دیہاتی گدھوں کو ہانکتے بس یہی کہتے: ’’بس ابھی کچھ دیر میں ہم گاؤں پہنچ جائیں گے۔۔۔‘‘
دوپہر گزر گئی۔ دِن ڈھلنے لگا۔ ایک دیہات میں پادری کا قافلہ داخل ہوا۔ راستے پر بہت سے لوگ جمع تھے۔ یہ لوگ پادری کی آمد پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان لوگوں کے ایک طرف دیہات سے باہر پھینکے گئے کوڑے کرکٹ اور گوبر کا ڈھیر تھا۔ اس ڈھیر پر کتوں کا ایک گروہ مسلسل بھونک رہا تھا۔ اکثر لوگ ان کتوں کی طرف مٹی کا ڈھیلا پھینکتے۔ کتے فوراً گاؤں کی طرف بھاگ جاتے مگر وہ جس تیزی سے دُور بھاگتے ، اسی تیزی سے پھر لوٹ آتے اور بھونکنا شرو ع کر دیتے۔
پادری کو ایک جلوس کی شکل میں ایک بڑی حویلی میں لا یا گیا۔ اس حویلی کی ایک بیٹھک میں صرف پادری اور مرنے کے قریب عورت کے شوہر کے علاوہ ایک دو افراد ہی داخل ہوئے۔ بیٹھک کی بغل میں، ایک کمرے میں ایک عورت لیٹی ہوئی تھی۔ وہ مسلسل چھت کو دیکھ رہی تھی۔ پادری اس کمرے میں آئے۔ انہوں نے عورت کو آواز دی۔ عور ت نے کوئی جواب نہ دیا اور مسلسل چھت کودیکھتی رہی۔ وہ واقعی مرنے کے قریب تھی۔ پادری نے دعائیں پڑ ھ پڑھ کر اس عورت پر پھونکیں مارنا شروع کر دیں۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ عورت نے ایک لمبی سانس لی۔ آنکھیں چھت سے ہٹا کر پادری کی طر ف کیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ پادری جو پہلے سرگوشی میں دعائیں پڑھ رہے تھے ، اب بلند آواز میں دعائیں پڑھنا شروع کر دیں۔ ان کا خیال تھا کہ اب عورت کی روح اس کے جسم سے نکلی کہ نکلی۔ مگر عورت کے جسم سے روح نکلنے کی بجائے واپس آگئی۔ اس کے پپوٹے پھڑپھڑائے اور اس نے منمناتے ہوئے پوچھا:
’’
میں کہاں ہوں؟‘‘
حیرت زدہ پادری نے کہا، ’’اپنے گھر میں۔۔۔!‘‘
پانی۔۔۔ پانی دو۔۔۔‘‘ عورت نے سانسوں کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا۔
’’
پانی لاؤ، صراحی لے آؤ۔۔۔‘‘ عورت کی چارپائی کے ارد گرد رشتے داروں نے شور مچا دیا۔
فوراً پانی کا ایک کٹورا لایا گیا۔ اس کے خاوند نے اپنے ہاتھ سے عورت کو پانی پلانا شروع کیا۔ عورت غٹاغٹ پانی پی گئی۔ ’’بڑی بھوک لگی ہے ۔۔۔ کھانے کے لیے کچھ لاؤ۔۔۔ ‘‘ عورت چلّانے لگی۔
کھانا لایا گیا۔ عورت نے کھانا کھایا۔ تھوڑا سا پانی پیا اور صحن میں ٹہلنے لگی۔ اس طرح ٹہلنے لگی جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ پادری کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے:
’’
۔۔۔۔ آپ کے دم قدم سے اس گھر پر برکت نازل ہوئی۔ اس مرتی ہوئی عورت کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ اگر یہ مر جاتی تو اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا بنتا۔۔۔ ہم جس قدر بھی شکریہ ادا کریں، کم ہے۔۔۔‘‘
’’
ارے بھائیوں، اس میں میرا کیا کمال ہے۔۔۔ یہ سب اس خداوند کی مہربانی سے ممکن ہوا۔۔۔ اس کے کلام میں بڑی طاقت ہے۔۔۔‘‘ پادری نے حیرانی سے کہا۔
’’
آپ جو چاہیں نام دیں۔۔۔اصل بات تو یہ ہے کہ یہ سب آپ کے یہاں آنے پر ہی ممکن ہوا۔۔۔ اگر آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف نہ لاتے تو میری بیوی تو ضرور مر جاتی۔۔۔‘‘ عورت کے شوہر نے کہا۔
بیٹھک میں پڑے پلنگ پر صاف ستھرے کھیس اور تکیے سجا دیے گئے۔ پادری کواس پر بٹھا کر، ان کے لیے اچھے اچھے کھانوں کا انتظام شروع ہو گیا۔ ایک مرغی ذبح کر دی گئی اور اسے پکانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پادری نے کھانا تناول کیا۔ اس وقت سائے لمبے ہونا شروع ہو چکے تھے۔ پادری نے واپس چرچ جانے کی اجازت چاہی۔ اس پر عورت کے خاوند نے کہا:
’’
آپ نے ہم پر اتنی بڑی مہربانی کی ۔ ہم آپ کی کم ازکم تین روز کی میزبانی کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
پادری کے بار بار انکار کے باوجود، انہیں تین روز تک وہیں گاؤں میں رکھا گیا۔ چوتھے روز ایک سواری تیار کی گئی۔ اسے مختلف تحائف ،مرغیوں، گندم ، دالوں اور گھر میں تیار کردہ سوغاتوں سے لاد دیا گیا۔ جب پادری رخصت ہونے کے لیے بیٹھک سے باہر نکلے تو ان کی مٹھی میں چرچ کے لیے چندہ بھی رکھ دیا گیا۔ چندے کی رقم سات سور وپے تھی۔ پادری حویلی سے باہر آئے۔ ایک آدمی ہانپتا ہوا پادری کے سامنے آتے ہی ان کے قدموں پر گر پڑا۔
’’
فادر!‘‘ وہ بڑی عاجزی سے گڑگڑانے لگا۔ ’’آپ کی کرامات کی خبر چاروں طرف پھیل چکی ہے۔ میرا چچا، جو میرے باپ کے مرنے کے بعد، میرے باپ کی طرح ہے، آخری سانسیں گن رہا ہے۔ وہ آپ کی دعاؤں میں اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کی بخشش ہو جائے گی۔۔۔!‘‘
’’
مگر بیٹے، اب تو ہم گھر جانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔۔۔‘‘ پادری نے بے یقینی سے کہا۔
’’
اس گاؤں سے کچھ فاصلے پر آپ کو جانا ہو گا۔ آپ کو زیادہ دیر نہ لگے گی۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔۔۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔
’’
کتنی دور ہے، گاؤں۔۔۔؟‘‘ پادر ی نے دریافت کیا۔
’’
صرف چند منٹ کا فاصلہ ہے۔۔۔‘‘
پادری کو اس آدمی کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ سوجھا۔ وہ ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ایک گاؤں میں آئے۔ وہاں ایک مکان میں ایک بوڑھا، بستر پر لیٹا تھا۔ اسے کسی چیز کی سدھ نہ تھی۔ وہ ادھ مؤا سا لگ رہا تھا۔ اس کے رشتے دار اس کی چارپائی کے ارد گرد پریشان حال کھڑے تھے۔ پادری نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دعائیں پڑھنا شروع کر دیں۔ وہ دعائیں پڑھ پڑھ کر مسلسل پھونکیں مار رہا تھا۔ اچانک وہ بے سدھ بوڑھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سب لوگ پادری کی طرف لپکے۔ اس کے ہاتھوں کو چومنے لگے۔ پادری نے ان کا شکریہ ادا کیا اور رخصت چاہی۔ سب لوگوں نے اصرار کر کے پادری کو تین روز کے لیے اپنے پاس ٹھہرنے پر راضی کر لیا۔ پادری تین روز اس گاؤں میں رہا۔
تیسرے روز، جب وہ وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ایک شخص انھیں اپنے گاؤں لے جانے پر اصرار کرنے لگا۔ وہ پادری کے انکار پر بار بار کہہ رہا تھا کہ چاہے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، وہ برکت کے لیے اس گاؤں ضرور چلیں۔پادری، اس اصرار کے سامنے بے بس ہو گئے اور اس گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ گاؤں میں داخل ہوئے۔ وہاں ایک دکان کے باہر ایک چبوترے پر ایک لُولا لنگڑا نوجوان بیٹھا تھا۔ پادری کو اس کے پاس لایا گیا۔ پادری نے دعائیں پڑ ھ کر نوجوان پر دم کیا۔اس کی ٹانگوں کو چھؤا۔ اپاہج نوجوان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ ہر طرف پادری کی تعریف کے نعرے بلند ہونے لگے۔
پادری کو گاؤں کی برکت کے لیے تین دن اور تین راتوں کے لیے رکھا گیا۔ جب یہ مدت پوری ہوگئی تو پورے گاؤں نے تحائف جمع کیے۔ اب پادری کے پاس تحائف اس قدر زیادہ ہوگئے تھے کہ ان کے گدھے پر مزید سامان رکھنا ممکن نہ تھا۔ چرچ کے لیے ملنے والے چندے کی رقم اب بڑھ کر تین ہزار روپے ہو چکی تھی۔ پادری نے یہ رقم اپنے بٹوے میں ڈالی اور اس عبا کے نیچے بنیان پر لگی جیب میں ڈال لیا۔

(4)

پادری گھر جانے کے لیے چل پڑے۔ انہوں نے اپنے میزبانوں سے کہا کہ وہ اسے با حفاظت گھر تک چھوڑ آئیں۔ سب پادری کے ساتھ ہولیے۔ سب کہنے لگے:
’’
ہماری جانیں آپ پر قربان۔۔۔ ہم اس وقت تک آپ کے ساتھ رہیں گے جب تک آپ کو چرچ نہ پہنچا دیں۔ آپ تو ہمارے لیے خداوند کی رحمتوں کا وسیلہ ہیں۔۔۔‘‘
’’
ہم آپ لوگوں کو تکلیف دے رہے ہیں، مگر کیا کریں یہ راستہ محفوظ نہیں۔۔۔‘‘ پادری نے کہا۔
’’
آپ نے درست فرمایا، اس علاقے میں دن دیہاڑے بندہ غائب ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘
سرکار بھی اس سلسلے میں ناکام ہوگئی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کے لوگ، بسوں سے مسافروں کو اتار کر اغوا کر لیتے ہیں اور تاوان کی بڑی رقم لیے بغیر چھوڑتے ہی نہیں۔۔۔ اگر کوئی موٹی آسامی ہاتھ آجائے تو لاکھوں روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ پادری کافی دلچسپی لے کر مزے مزے سے بات کر رہے تھے۔
’’
میں نے سنا ہے کہ ایک بس کو ڈاکوؤں نے روکا۔ اس میں پولیس والے بھی بیٹھے تھے۔ ڈاکوؤں نے انہیں تو کچھ نہ کہا۔ البتہ لوگ انہیں مدد کے لیے کہہ رہے تھے۔ پولیس والوں نے ڈاکوؤں کے خوف سے اغواہ شدہ لوگوں کی مدد تو کیا کرنا تھی وہ تو ڈاکوؤں کے احسان مند تھے کہ انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ پولیس والے بار بار اغوا شدہ لوگوں کی طرف اشارہ کرکے ڈاکوؤں سے کہہ رہے تھے۔ ’’جلدی کرو، ان کو لے بھی جاؤ۔۔۔ ہماری جان چھوڑو۔۔۔‘‘
یہ سن کر سب دیہاتی کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ ایک دیہاتی کہنے لگا:
’’
آپ بالکل نہ ڈریں۔ جب تک ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔۔۔آپ اس گدھے سے صرف اس وقت اتریں گے، جب آپ چرچ تک پہنچ جائیں گے۔۔۔‘‘
’’
ہم جانتے ہیں کہ تم بہت بہادر ہو۔۔۔ تم لوگوں میں خداوند کے لیے عقیدت کے باعث ایک انجانی طاقت آگئی ہے۔ میںیہ سب دیکھ کر بہت متأثر ہورہا ہوں۔۔۔ ‘‘ پادری نے کہا۔
’’
ایسی بات آپ کے آنے سے پہلے نہ تھی۔ آپ کی کرامات نے ہمارے دلوں میں خداوند کی محبت پھر سے زندہ کر دی ہے۔ آپ ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔‘‘ ایک دیہاتی نے کہا۔
’’
یہ سب اس خداوند کی مہربانی سے ہوتا ہے۔۔۔ دل میں یقین ہو تو پھر ہی خداوند اپنی کرامات ظاہر کرتا ہے۔۔۔میں تو صرف ایک وسیلہ ہوں۔۔۔‘‘ پادری نے بڑی عاجزی سے کہا۔ ’’اصل بات تو آپ لوگوں کے دلوں میں خداوند کی محبت ہے۔‘‘
’’
ہم میں خداوند کی محبت ۔۔۔؟‘‘ سب دیہاتی ایک ساتھ بول پڑے۔
پادری بہت خوش تھے کہ تینوں کے ساتھ میں خداوند کے پیار کی باتیں کررہے تھے ۔ انہوں نے اس بات کا ذرا بھی خیال نہ کیا کہ آہستہ آہستہ دیہاتی، پادری کے قافلے سے کم ہوتے جار ہے تھے۔ دُور سے چرچ نظر آنے لگا۔ پادری خوش ہوگئے اور انہوں نے دیہاتیوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پیچھے کی طرف منہ موڑا۔ انہوں نے دیکھا وہاں کوئی بھی دیہاتی موجود نہ تھا۔ وہ ہکے بکے رہ گئے۔

(5)

پادری چرچ کے قریب ایک کھلے میدان میں آگئے۔ چرچ کے تمام ملازم ان کو دیکھتے ہی ان کی طرف لپکے۔ چھوٹا پادری ان کے ہاتھ چوم رہا تھا۔ کوئی انہیں گلے لگا رہا تھا۔ سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے۔ چھوٹے پادری نے پادری کو گلے لگایا اور کہنے لگے:
’’
شکر ہے، آپ صحیح سلامت پہنچ گئے۔ ان لوگوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔۔۔ انہوں نے آپ کو لوٹا دیا۔۔۔ آپ ہر رقم کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہیں۔۔۔‘‘۔
’’
کیسی رقم۔۔۔؟‘‘ پادری نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’
وہ رقم جو ہم نے اس گروہ کو ادا کی۔۔۔‘‘۔
’’
کون سا گروہ۔۔۔؟‘‘
’’
وہ، جس نے آپ کو اغوا کر لیا تھا۔ اوّل تو وہ پانچ لاکھ سے ایک روپیہ بھی کم لینے پر آمادہ نہ تھے، ہم نے منّت سماجت کر کے انہیں تین لاکھ روپے تاوان پر راضی کیا۔۔۔‘‘۔
’’
تین لاکھ تاوان۔۔۔‘‘ پادری چیخا۔ ’’آپ نے ہمارے لیے اتنا تاوان ادا کیا! ان لوگوں نے آپ کو بتایا نہیں کہ انہوں نے ہمیں اغوا کر لیا ہے۔۔۔؟‘‘۔
’’
جی، آپ کے جانے کے تین روز بعد چند لوگ ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک گروہ نے آپ کو اس وقت اغوا کر لیا تھا جب آپ صبح صبح پودوں کو پانی دے کر واپس اپنے کمرے میں جا رہے تھے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر تاوان کی رقم ادا نہ کی گئی تو آپ کی جان کی خیر نہیں۔ اگر تاوان کی رقم ادا کر دی گئی تو وہ آپ کو حفاظت سے چرچ تک چھوڑ جائیں گے‘‘۔
پادری نے سب باتوں پر غور کیا۔ انہیں ساری بات کی سمجھ آگئی۔
’’
بے شک، ساری بات بالکل واضح ہوگئی ہے۔‘‘ پادری نے اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے کہا۔ ’’وہ مرتے ہوئے لوگ، وہ اپاہج اور وہ بیمار۔۔۔ میری دعاؤں سے کرامات بننے لگے۔۔۔ کیسی مہارت سے یہ سب کچھ، ان لوگوں نے کیا۔۔۔‘‘
پادری کے ساتھی، ان کے قریب آ کر ان کے بدن اور لباس کا معائنہ کرنے لگے۔ وہ تسلی کر رہے تھے کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف تو نہیں دی گئی۔
’’
آپ کی سلامتی سے بڑھ کر ہمیں کوئی چیز عزیز نہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ قید کے دوران، اغوا کرنے والوں نے آپ کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی ہوگی۔ وہ آپ سے کس طرح پیش آئے؟‘‘
حیرت میں ڈوبے پادری نے جواب دیا:۔
’’
انہوں نے ہم سے کرامات کروائیں۔۔۔ایسی کرامات جو چرچ کو بہت مہنگی پڑیں!‘‘۔

(ایک مصری مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

Comments are closed.