“توانوں رب دا واسطہ پنجاب نوں تقسیم نہ کرو “

شہزاد عرفان 

سوال تو یہ ہے کہ آج جوغیرت مند پنجابی سرائیکی صوبہ یا تقسیم پنجاب کے درد و غم میں ڈولیاں مار رہا ہے اس سے کوئی پوچھے کہ 1947 میں یہ درد کیوں نہ جاگا۔؟ ذرا پوچھیں اپنے پرکھوں سے کہ اس وقت کیوں پنجاب کو تقسیم کیا؟

سکھ تو کسی صورت پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے تھے وہ تو ہندوستانی پنجابی آبادکار کا مطالبہ تھا کہ اسی پنجاب نو دو ٹکڑے کرنا ہے آج وہ اور انکی اولادیں تقسیم پنجاب کا رونا رو رہے ہیں جو خود تقسیم پنجاب اور نوع انسانی بالخصوص پنجابی قوم کا قتل عام کروانے میں ملوث تھے۔

ذرا اپنے بزرگوں سے پوچھیں کہ کیا تقسیم کے وقت سکھ اپنی پگڑیاں قدموں ڈال کر ہاتھ جوڑ کر منتیں ترلے نہیں کر رہے تھے کہ اسی اکو پنجاب دے واسی ہیں اک بولی بولدے ہیں ،اسی صدیاں توں کٹھے ریہندے آں توانوں رب دا واسطہ پنجاب نوں تقسیم نہ کرو ۔

مگراس وقت انگریز کی دی ہوئی انگلی اور سرائیکی علاقوں کی مفت زرخیز زمینیں، ہندوں کی چھوڑی حویلیاں اور جھوٹے کلیم سے ہتھیائی جائدادوں کے سہانے خواب سونے نہیں دیتے تھے جبکہ سکھوں کو تقسیم ہند نہیں تقسیم پنجاب کا درد کھائے جا رہا تھا۔

وہ تو جب سنٹرل اور اپر پنجاب کے پنجابیوں نے مذہبی جنونیت میں اندھے ہوکر سکھوں کی جائدادیں مال و دولت عزتیں لوٹ کر عورتیں بچوں بوڑھوں جوانوں کی لاشوں سے ٹرین کی بوگیاں بھر کے ہندوستانی پنجاب بھیجیں تو واپسی پر سکھ پنجابیوں نے بھی مذہب کی بنیاد پر اپنے مسلمان پنجابیوں کی عزتیں پامال کر لاشوں کو ہماری سرائیکی دھرتی پہ پھینکا۔

ہر دو طرف پنجابی قوم نے مذہبی جنونیت اور دولت جائداد کے لالچ میں رنجیت سنگھ کے مفتوحہ پنجاب کے دو ٹکڑے کئے ، اپنی ہی ایک قوم اور دھرتی کو مشرقی اور مغربی پنجاب میں تقسیم کیا تو اس وقت کسی غیرت مند پنجابی کی قومی غیرت کو ٹھیس نہیں لگی نہ کسی کو پنجاب کی تقسیم کا درد نہیں آیا ۔

مگر آج جب سرائیکی خطے کے پر امن عوام جسے رنجیت سنگھ نے دو سو سال پہلے فتح کیا تھا جو اپنی دھرتی،اپنی زبان ثقافت تاریخ اور تہذیب کی بنیاد پر جمہوری طریق سے پرُامن طور پر اپنا آئینی حق مانگ رہے ہیں تو پنجابیوں کو رنجیت سنگھ آج اپنا ہیرو بھی لگتا ہے، ان کو ننکانہ صاحب میں سرکاری پروٹوکول، سلامی اور سیکورٹی بمعہ سیلوٹ بھی کئے جاتے ہیں ہار پہنائے جاتے ہیں اور ہر ٹی وی چینل پر مکمل کوریج دی جاتی ہے۔

ہندوؤں کے مندروں،مسیحیوں کے گرجا گھروں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مقابلے میں پنجابی سکھ گردوارے زیادہ محفوظ ہیں، اس پرکسی سر پھرے پنجابی طالبان نے کبھی حملہ بھی نہیں کیا کیوں کہ یہ مذہبی عدم تحفظ کی صورتحال انجینئیرڈ ہے ۔۔۔۔۔

حد تو یہ ہے کہ پنجابیوں کی نمائندہ جماعت اور اس کے لیڈر نواز شریف جس نے مذہبی فوجی آمریت کی کوکھ سے جنم لیا جس نے پاکستان میں آمریت کوطویل العمری فراہم کی اسے آج لیفٹ اور رائٹ کے پنجابی ترقی پسند اور مدرسہ مافیہ مل کر جمہوریت کا ہیرو بنانے میں لگے اس لئے کہ وہ پاکستان میں دوسری قومیتوں پر پنجابی آمریت کا چمپئین ہے ۔

اس کے برعکس جن دھرتی زادوں نے آمریت کے خلاف جمہوریت کی جدوجہد کی ان کے نصیب میں پھندا ( بھٹو)’ بمباری (بگٹی) ،گولی(بی بی شہید) وہ کہ جنہوں نے مسکراہٹ کےساتھ عوام کی دھڑکن بننا قبول کیا۔ ۔

Comments are closed.