منیر سامی
گزشتہ دنوں پاکستان میں پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما، بلاولؔ بھٹو زرداری کی اس تصویر کا بڑا چرچا رہا جس میں بلاولؔ ، سندھ کے وزیرِ اعلیٰ اور دیگر عمائدین کے ساتھ ایک اسلامی جماعت کے دفتر میں ایک بڑا سا سبز عمامہ سر پر پہنے ہوئے کچھ کتابوں کا مشاہد ہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے پھر اسی جماعت کے زیرِ اہتمام تجویز کی گئی فیضان ِ مدینہ یونیورسٹی کے لیئے ایک بڑا قطعہ زمین تحفہ کرنے کا اعلان کر دیا۔
پہلے تو ہم اس تصویر کو دیکھ کر خوف سے لرزے، کیونکہ سیاست میں مذہب کے دخل کا معاملہ کبھی بھی ، سیاست، اہلِ سیاست، اور ریاست کے لیے خوش آئند نہیں رہا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنا بلاول ؔ زرداری کے لیے کچھ اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اب سے صرف چند سال ہی پہلے خود ان کی اپنی جماعت کے رہنمااور صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان ؔتاثیر کو ایک مذہبی جنونی نے کھلے بندوں قتل کر دیا تھا۔
پھر ہم اس تصویر کے تناظر میں پاکستان سے کچھ عمدہ کارٹون دیکھ کر مسکرائے بھی اور ہمیں خود بلاول کے نانا ، ذوالفقار بھٹو ؔ یاد آئے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے عوامی بہبودی نظریات کو مشرف بہ اسلام کر کے اسلامی سوشلزم کا ایک نیا نظریہ پاکستانی عوام کو پیش کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے اہم نظریاتی مفکرین کو ،جن میں ڈاکٹر مبشر، جے اے رحیم ، معراج محمد خان، شیخ رشید وغیرہ شامل تھے، ٹھکانے لگا دیا تھا۔
چند لمحے بعد ہمارے یہ مسکراہٹ بھی ہواہوگئی ۔ ہمیں یاد آیا کہ جس جماعت کو رام کرنے کے لیئے بلاول زرداری نے سبز صافہ پہنا تھا ، خود اسی جماعت سے تعلق رکھنے والی مولانا نورانیؔ کی جماعت ان نو ستاروں میں شامل تھی جس نے ایک اسلامی متحدہ محاذ بنا کر بلاول کے نانا بھٹو ؔ کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں بھٹو کو وہ کج فکر فیصلے کرنے پڑے تھے جن کی سزا پاکستان کے عوام اور سیاستدا ن آج تک بھگت رہے ہیں۔ ان فیصلوں میں پاکستان کی سیاست میں مذہب کا دخل مضبوط تر کیا گیا تھا۔ اس کے باجود نہ صرف یہ کہ بھٹو کو حکومت گنوانا پڑی تھی بلکہ ان کی جان بھی گئی تھی۔
ہمارے قاریئن جانتے ہیں کہ ہم سیاست اور عمرانیات کے اس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس میں مذہب کو ریاست اور کاروبارِ حکومت سے الگ رکھا جاتا ہے۔ ہم جس جمہوری سیاسی نظام کی بات کرتے ہیں اس میں عوام کو اپنے مذہب اور مکتبہ فکر پر عمل کرنے کی آزادی توہوتی ہے لیکن ریاست یا عمائدین ِ ریاست نہ تو کسی مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کر سکتے ہیں ، اور نہ ہی کسی مذہب ، مسلک، مذہبی فکر کے حق میں یا خلاف کوئی تعصب رکھتے ہیں۔
ہم اس فکر کا پرچار ان تاریخی حقیقتوں کے تناظر میں کرتے ہیں جن میں سابقہ ادوار میں یورپ اور دیگر ممالک میں مذہب کی سیاست میں دخل اندازی کے نتیجہ میں آج کے کئی بڑے جمہوری ممالک سخت ترین خوں ریزی اور تشدد کا سینکڑوں سال شکار رہے تھے۔پھر ان ہی ممالک کے عمائدین ِ ریاست اور دانشوروں نے طے کیا تھا کہ ان کی ریاستوں میں مذہب اور ریاست کو الگ کر دیا جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ اب یہ ممالک نہ صرف دنیا کے اہم ترین جمہوری ممالک ہیں بلکہ معاشی اور سماجی طور پر ترقی یافتہ بھی۔
بلاول ؔزرداری تو انگلستان میں تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں ۔ کیا انہیں یاد نہیں کہ موجودہ دور میں جب بوسنیا، یوگو سلاویہ، کروشیا وغیرہ میں ریاستوں میں مذہبی جذبات کو اچھالا گیا تھا، وہاں کیسا کشت و خون اور ظلم ہوا تھا۔ کیا انہیں نظر آتا کہ عراق اور شام میں جو بھی خونریزی ہو رہی ہے اس کی بنیاد صرف اور صرف مذہبی تعصبات پر ہے۔ کیا وہ بھول گئے کہ ایرانی انقلاب کے دوران جب بائیں بازو کی جمہوری جماعتوں نے امام خمینی کی مذہبی جماعت کا ساتھ دیا تھا تو خود ان جماعتوں کا کیا حشر ہوا تھا ، اور ان کے رہنمائوں کو پھانسیا ں لگی تھیں یا انہیں ملک بدر ہونا پڑا تھا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی جماعت پاکستا ن میں عوامی بہبود اور ترقی پسند فکر کی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ اس کی بنیاداور قوت اس کے کارکنوں کے وہ نظریات تھے جو پاکستان کے عام کو ہرقسم کے جبر سے نجات دلانا چاہتے تھے۔ جس میں جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ ، اور مذہبی تعصبات کا جبر شامل تھا۔ یہ کارکن مذہبی جماعتوں کے مذہب کے استحصال کے خلاف تھے اور مذہبی جماعتوں سے مصالحت اور تعاون ان کی سرشت میں کبھی شامل نہیں رہا۔ یہ پیپلز پارٹی کے نظر یاتی کارکن ہی تھے جنہوں نے ذوالفقار بھٹو، اور بے نظیر بھٹو کو قوت اور طاقت فراہم کی تھی۔
بلاول ؔ زرداری کا مذہبی جماعتوں کو رام کرنے کے لیئے سبز صافے باندھنا اور مذہبی جماعتوں کومراعات دینا ، دراصل پیپلز پارٹی کے اولین اور بنیاد نظریات کی اور اور اس کے کارنوں کی توہین ہے۔ کیا بعید کہ ایک دن پیپلز پارٹی کا نام اسلامی پیپلز پارٹی ہوجائے، اور پھر پیپلز پارٹی جو اب سکڑ کر سندھ تک محدود ہو گئی ہے، وہاں بھی فنا ہو جائے۔
♦
One Comment