منیر سامی
چند روز میں پاکستان میں شہری حکومت کا ایک اور دور ختم ہونے والا ہے۔ بعض اسے ایک اور نام نہاد شہری حکومت بھی گردانتے ہیں۔ کیونکہ ہماری ہر حکومت ایک مقتدرہ کے طابع رہی ہے۔ جس میں حقیقی طاقت ہمیشہ عساکر، افسرشاہی، اور عدلیہ کی ایک تثلیث کے پاس ر ہی ہے جو سرمایہ داری اور جاگیر داری کے مفادات کی خدمت گزار ہے۔ اس تثلیث میں بھی ہمیشہ عسکری حلقہ غالب رہتا ہے ۔ کبھی کبھی اس تثلیث میں عدلیہ اوپرہونے کی کوشش کرتی ہے۔ جیسے فی زمانہ ہماری عدلیہ طاقت کو اپنی طرف کھینچنے کے کھیل میں مصروف ہے۔
اس تثلیثی تماشے کے باوجود گزشتہ تین شہری ادوار میں یہ ضرور ہوا ہے کہ عسکری قوتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت پر قبضہ کرنے کی ہوس کو کچھ قابو کرنا پڑا ہے، اور ایسی دفاعی مصلحت اختیار کر نا پڑی ہے، جس میں وہ ٹینکوں اور بندوقوں کے زور پرحکومت پر قبضہ کرتی دکھائی نہ دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہری حکومتوں کے مسلسل اداور میں شہریوں کو اپنا مسخ شدہ آئین درست کرنے کی مہلت ملی اور انہوں نے اپنے چند باشعور نمائندوں کی مدد سے اس میں وہ شقیں مضبوط کردیں جن کے تحت عسکری طاقت کے تحت آئین شکنی کرنے ولا غاصب قرار دیا جائے گا۔ اس اثنا میں عدلیہ کو بھی مضبوط ہونے کا موقع ملا۔
لیکن عدلیہ ابھی اتنی مضبوط نہیں ہو سکی ہے کہ وہ عسکری اداروں کے غاصب افراد کو کوئی سزا سنا سکے ، جس کی ایک فاش مثال جنرل مشرف کا مقدمہ بھی ہے جو آئین شکنی کے ملزم ہونے کے باجود کھلے بندوں قانون کا مذاق اڑاتے پھر رہے ہیں۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔ گو ہماری عدلیہ نے اصغر خان کے مقدمہ میں پاکستان کے عسکری ادارے ، آئی ایس آئی کو ناجائز طور پر انتخابات میں دخل اندازی کا مرتکب قرار تو دیا لیکن ملزمان کو سزا نہ دے پائی۔
گزشتہ تین شہری ادوار میں بھی ہماری مقتدرہ کا سیاست دانوں پر دباؤ جاری رہا ہے۔ علومِ سیاست اور عمرانیات کے ماہرین پر یہ واضح ہے کے پاکستان کے سیاست دان علم سیاست اور شہریت کے اصولوں سے عام طور پر بے بہرہ اور ناواقف ہیں۔ ان کی صرف ایک بہت چھوٹی سی اقلیت کو سیاسی تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے۔ ان پر ہماری مقتدرہ کا دباؤ سخت بھی ہے اور جابرانہ بھی ۔ نتیجہ یہ کہ شہری حکومتوں کی مہلت کے دوران بھی ان کو نہ صرف اپنے مفادات بلکہ خود اپنی آزادی کے دفاع میں طرح طرح کی مصلحتیں اختیار کرنا پڑتی ہیں، جن کے نتیجہ میں حکومتی کاروبار ناقص رہ جاتا ہے۔
اب شہری حکومت کا تیسراا دور اختتام پذیر ہے۔ اس ماہ کے آخیر تک سیاست دانوں کو نگراں حکومت کا فیصلہ کرنا پڑے گا اور دو سے تین ماہ کے اندر انتخابات بھی کروانے پڑیں گے۔ اگر سیاست دان آپس میں متفق نہ بھی ہوئے تو الیکشن کمیشن کو سیاست دانوں ہی کے نامزدکردہ چھہ افراد میں سے کسی کو نگراں حکومت بنانے کا اختیار دینا پڑے گا۔ اس نگراں دور میں مقتدرہ قوتیں اپنا دبائو استعمال کر کے اپنے پسندیدہ افراد کو منتخب کروانے کی کوشش کریں گی۔ لیکن انتخابات توکروانا ہی ہوں گے۔
سیاست دانوں پر لازم ہے کہ وہ بہر صورت انتخابات کو وقت پر کروانے کا مطالبہ کرتے بھی رہیں اور اس کے لیے عملی اقدام بھی کرتے رہیں۔ مقتدرہ قوتوں کو معلوم ہے کہ وہ انتخابات میں اب پہلے جیسی دھاندلی کرکے اپنے لاڈلوں کو اکثریت نہیں دلا سکتیں۔ بہت سے بہت وہ یہ نتیجہ حاصل کر سکتی ہیں کہ کسی کو بھی واضح اکثریت نہ ملے۔ اس کے لیئے انہوں نے یہ بندو بست تو کر لیا ہے کہ ہر بڑی جماعت کو ایک ایک صوبے تک محدود کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کو سندھ میں ، اور مسلم لیگ کو پنجاب میں محدود کرنے کی صورتِ حال تو بالکل واضح ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کوتو اپنی بقا کے لالے پڑے ہیں۔ تحریکِ انصاف بھی فی الوقت اپنے صوبہ میں محدود ہے، لیکن ممکن ہے کے اسے دوسرے صوبوں میں کچھ نشستیں دلوا کر ،کچھ قومی استحقاق حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔
ایسی صورتِ حال میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد اقلیتی یا مخلوط حکومت بنے۔ یہ بھی جمہوریت ہی کا خاصہ ہے۔ مہذب جمہوری ممالک میں اکثر مخلوط یا اقلیتی حکومتیں بنتی ہیں۔ جن کا دور ِ حکومت کبھی مختصر ہو تا ہے کبھی مکمل ۔ لیکن انتخابات کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی صورتِ حال تو ایسی رہی ہے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال میں کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ کوئی بھی حکومت اپنا دور مکمل کر سکے گی۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے کوشش کی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کیئے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ انہیں اب بھی ایسا ہی کر نا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ یا راستہ نہیں ہے۔
پاکستان میں یا کسی بھی ملک میں عسکری آمریتوں کو اور عسکری آمریت کے بغل بچوں کو پیچھے دھکیلنے کا صرف اور صرف ایک طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ اربابِ سیاست کسی نہ کسی طور جمہوری عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ عسکری قوتیں جمہوری عمل سے اور عوام کے ووٹ سے خائف رہتی ہیں۔ بینظیر ؔ نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ، ’’جمہوریت اصل انتقام ہے‘‘۔
♦