اصغر خان کیس کے کئی پہلو ہیں۔ ہر پہلو اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ اس مقدمے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کیس کے فیصلے سے پاکستان کی جمہوری قوتوں کے اس پرانے الزام کی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان میں مقتدر قوتیں انتخابات پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ یہ الزام تسلسل سے سامنے آتا رہا ہے۔ انفرادی طور پر امیدواروں کی طرف سے بھی، اور اجتماعی طور پر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی۔
قبل از انتخابات، دوران انتخابات اور بعد از انتخابات دھاندلی کی شکایات قریب قریب سب انتخابات میں سامنے آئی ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی اور انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے جو الزامات سامنے آتے رہے ہیں، ان میں الیکشن سے پہلے امیدواروں کی نامزدگی کے عمل میں مداخلت، ان کو پارٹی بدلنے کی ترغیب دینا یا اس پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا ، اپنی پسند کے امیدوار کے لیے سرکاری مشینری کا ستعمال، ووٹروں کی خرید و فروخت، بیلٹ باکس کی تبدیلی، جعلی ووٹ ڈالنے کی کوشش، گنتی میں ہیرا پھری سمیت کئی دوسرے الزامات شامل ہیں ، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
اصغر خان کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بنچ نے جو سب سے اہم بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ یہ مقدمہ جلد نمٹانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ1990 کے انتخابات کے تاریخی پس منظر کو دوبارہ لکھا جائے۔ یہ بہت اہم بات تھی۔ عدالت نے تاریخ کو اپنے اصلی تناظر اور پس منظر میں پیش کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ مگر یہ ضرورت صرف 1990 کے انتخابات تک ہی محدود نہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں بے شمار واقعات ا یسے ہیں ، جن کو ان کے درست تاریخی تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ایک تو تاریخ اپنی اصل شکل میں نئی نسل کو منتقل ہو سکتی ہے، جو ان کا حق ہے، اور دوسرا مستقبل میں ایسے واقعات کو دہرانے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ کا بیشتر حصہ فوجی آمریتوں یا مطلق العنان حکومتوں پر مشتمل رہا ہے۔ ان حکومتوں کے اد وار میں پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین اور بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
ان واقعات میں بھارت سے چار کھلی جنگیں ہوئیں۔ کچھ خٖفیہ یا بلواسطہ لڑائیاں ہوئیں، اہم مذاکرات اور امن معاہدے ہوئے۔ داخلی سطح پر ملک کے اندر کئی حکومتیں بنانے اور ہٹانے کے اقدامات ہوئے۔ کئی انتہائی اہم داخلی اور خارجی سطح کے فیصلے ہوئے۔ اور ان سارے واقعات کو جس طرح عوام اور ذرائع ابلاغ میں پیش کیا گیا، وہ اس وقت کے حکمرانوں کی افتاد طبع یا مرضی کے مطابق تھے۔
آج یہ واقعات تاریخ ہیں۔ چنانچہ تاریخ کے ایک بڑے حصے کو دوبارہ دیکھنے اورلکھنے کی ضرورت ہے۔ 90کے الیکشن کی طرح کئی بڑے واقعات کو ان کے درست تاریخی تناظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے تاریخ کو مسخ کرنے، چھپانے یا اپنی مرضی کے مطابق پیش کرنے کا عمل صرف آمریتوں میں ہی نہیں ہوا۔ ایسا مطلق العنان اور نیم جمہوری حکومتوں کے دوران بھی ہوتا رہا ۔ اور سچ تو یہ کہ یہ واردات صرف پاکستان کے عوام کے ساتھ ہی نہیں ہوئی، دوسرے ملکوں میں بھی ہوئی، جن میں مشرق و مغرب کی آزاد جمہوریتیں بھی شامل ہیں۔
اس کی وجہ ہے کہ حکمران طبقات ہر دور میں تاریخ کے ہر بڑے واقعے کو اپنے مفادات کے مطابق دیکھتے رہے ہیں۔ اور جب کبھی ہو سکا کسی واقعے کو اس طرح عوام کے سامنے پیش کرنے یا بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، جس سے ان کو مفادات کو تقویت مل سکتی ہو۔ چنانچہ حکمرن جن وجوہات پرکچھ تاریخی واقعات کو مسخ کر نے کی کوشش کرتے رہے ان میں پہلی وجہ اپنے کسی عمل کو جوازیت فراہم کرنا رہاہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ حکمران کسی حقیقت کو کسی مناسب موقع کی تلاش میں چھپا لیتے ہیں تاکہ اس کو ایسے موزوں وقت پر منظر عام پر لایا جائے جن سے ان کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ تیسرا کسی مشکل وقت میں اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کی خواہش، یہ مشکل وقت جنگ بھی ہو سکتی ہے ، یاانتخابات ہو سکتے ہیں۔ ان وجوہات میں اپنے آپ یا اپنی پسند کے لوگوں کو فائدہ پہچانے، یا اپنا کوئی موقف درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کو دوبارہ لکھنا یا توڑ موڑ کر بیان کرنا شامل ہے۔
مشرق و مغرب میں تاریخ کے ساتھ جو یہ غلط سلوک ہوتا رہا ہے ، اس پر سینکڑوں دانشوروں نے لکھا ہے۔ ادب تخلیق کیا ہے۔ ان میں ایک اہم نام جرمن نثزاد ا مریکی فلسفی ہننا ارینڈٹ بھی ہے۔ اس نے بڑے مشکل وقت میں اس موضوع پر لکھا۔ اس نے نازی جرمن کا عروج و زوال، ویتنام کی جنگ، پیرس میں طلبا کے ہنگامے، امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ کے قتل جیسے واقعات دیکھے۔ ان سارے واقعات کے بارے میں کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ ان میں اصل واقعات کو چھپا لیا گیا، یا پھر حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔
ایک یہودی کی حیثیت سے ہننا ارینڈٹ کو نازی جرمنی، مقبوضہ فرانس اور پھر نیویارک میں رہتے ہوئے ان واقعات کا ایک طرح سے خود براہ راست تجربہ ہوا، اپنے ایک مشہور مضمون ، سچ اور سیاست، میں اس نے لکھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے، اور مخصوص سیاسی فیصلوں کو جوازیت بخشنے کے لیے حقائق کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، سیاست کی دنیا میں حقائق کو مسخ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں سفارت کاری اور ملکی سلامتی کے نام پرجھوٹ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن ساٹھ کی دھائی کے بعد جھوٹ کا دائرہ کار زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔ ریاستیں سرکاری راز چھپانے کی حد سے بہت آگے بڑھ کرحقائق کو نشانہ بنانے اور مٹانے تک پہنچ گئی ہیں۔ اب تاریخی حقائق کا ایک نیا ورزن پیدا کیا جاتا ہے جو اصل حقائق کی جگہ لے لیتا ہے۔ حقائق کے بارے میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری صرف مطلق العنان حکومتوں تک ہی محدود نہیں رہی، جہاں جبر عام ہے، جہاں ہو سکتا ہے عوام بھی سرکاری پروپیگنڈے کے بارے میں ہوشیار رہتے ہوں، بلکہ اس دوڑ میں امریکہ جیسی آزاد جمہوریتیں بھی شامل ہو گئیں، جہاں ایک خاص مقصد کے لیے غلط معلومات اور رپورٹس تیار کی گئی تاکہ حکمرانوں کی طرف سے دوسرے ملکوں میں پرتشدد سیاسی مداخلت کو اخلاقی جواز مہیا کیا جا سکے۔
مثال کے طور پر ویت نام کی جنگ جوسنہ1957 سے لیکر سنہ1975تک جاری رہی۔ اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پرآزاد دنیا میں ناپسندیدہ تاریخی سچائیوں کو محض ایک رائے بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مثال کے طور پر یہ کوشش کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس اور ویٹیکن کی پالیسی کوئی تاریخی ریکارڈ کا معاملہ نہیں، بلکہ رائے کا معاملہ ہے۔ اس سلسلہ عمل میں سیاسی ضروریات کے لیے تسلیم شدہ حقائق سے انکار کیا گیااور نئی حقیقت تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی۔
جن لوگوں نے تاریخ خود دیکھی ان کی موجودگی میں تاریخ کو دوبارہ لکھنا در اصل ایک ایسی نئی حقیقت تخلیق کرنا ہے ، جس کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس کی ایک عام مثال نازی جرمنی میں انسانوں کا قتل عام ہے۔ یہ تو ہننا کے دور کی صورت حال تھی، جب حکمران اپنی سیاسی ضروریات کے لیے حقائق چھپاتے تھے یا مسخ کر کے پیش کرتے تھے۔ ہمارے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بلکہ کئی دفعہ یہ اس دورسے بد تر ہو جاتاہے۔
سنہ 2003 میں عراق پر امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کا حملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس کی ایک موجودہ مثال جولین اسانج بھی ہیں۔ جولین نے جو خفیہ دستاویزات عام کیں وہ دنیا بھر میں حکومتوں کے سرکاری موقف کی مکمل نفی کر رہی تھیں۔ ان کے حقائق کے ساتھ تضادات اور تصادم کو سامنے لاتی تھیں۔ چنانچہ ہمارے دور میں تاریخ کو مسخ ہونے سے بچانے اور اس کو درست پس منظر میں پیش کرنے کا چیلنج نا صرف پوری طرح موجود ہے، بلکہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
♦