علی احمد جان
مسلم لیگ کی حکومت کو پانچ سال مکمل ہوگئے اور اب چل چلاؤ کا وقت ہے بقول شاعر جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا شام گیا ۔ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں پاکستان کی خالق کہلانے والی جماعت نے ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایسے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں جو ملک کی آئندہ کی سیاست کے سمت کا تعین کریں گے۔
خاص طور پر اس جماعت کے اپنے حلقہ نیابت وسطی پنجاب پرخصوصی توجہ سے دیگر صوبوں ، علاقوں اور خود پنجاب کے دیگر اضلاع میں پیدا ہونے والی بے چینی ایک سیاسی طوفان کی شکل میں بدل رہی ہے جس کے نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے دور قتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی امڈ آنے کا اندیشہ ہے۔
بلوچستان میں اس بے چینی کے وزیر اعلیٰ پر عدم اعتماد کی شکل میں بر پا ہونے کے بعد فاٹا سے منظور پشتین کی تحریک کی شکل میں اب ملک کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں فاروق حیدر کی نونی حکومت کے خلاف پائی جانے والے بغاوت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ باقی دو صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں تو وہاں اس پر تبریٰ وہاں کی صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں جس کو فی الحال اپوزیشن کی روایتی مخالفت گردانا جارہا ہے۔
گلگت بلتستان میں2009ء کے صدارتی حکم نامہ کے نفاذ کے بعد ایک صوبائی حکومت کی تشکیل ہوتی ہے جو اس وقت مسلم لیگ نواز کی ہے۔ چونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان کے آئین کا براہ راست اطلاق نہیں ہوتا ہے اس لئے وہاں انتخابات میں مرکزی اور پاکستان کی دیگر صوبائی حکومتیں دل کھول کر مداخلت کرتی ہیں۔
انتخابات کے وقت جعلی اور اصلی سکیموں کا اجراء ، نوکریوں کے جھانسے، سرکاری عہدوں پر تعیناتی کے وعدےاور تبادلے جو پاکستان میں انتخابات کے وقت ممنوع ہوتے ہیں لیکن ان علاقوں پر ایسی کوئی بندش نہیں ہوتی اس لئے کبھی خواب میں بھی نظر نہ آنے والے وفاقی وزراء انتخابات کے دنوں میں گلگت میں ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں ۔
ایک خاتون تو مشرف کے وقت سے امور گلگت بلتستان میں مہارت کے درجے پر فائز ہے جو ہر حکومت کو جتوانے میں کلیدی کرادار کا تاج ہر دور میں اپنے سر رکھتی ہیں۔ تمام سرکاری وسائل اپنے جیب میں رکھے امور کشمیر و گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر کو انتخابات کے دنوں میں علاقے کا گورنر بنا کر وائسرائے کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے حالانکہ ملک میں کسی بھی شخص کو دو منفعت کے حامل عہدے رکھنے کی قانوناً ممانعت ہے مگر یہاں اس کا اطلاق خاص لوگوں پر نہیں ہوتا۔
مسلم لیگ نواز نے بر سر اقتدار آکر وفاقی وزیر امور کشمیر اور گلگت بلتستان کو مختصر مدتی گورنری سے ریٹائرڈ کرکے تا حیات پنشن اور مراعات کا حقدار کردیا اور عوام سے وعدہ کیا کہ وہ 2009ء والے زرداری کے دستخطوں سے جاری کردہ صدارتی حکم نامے میں ترمیم کرکے مزید اختیارات گلگت بلتستان منتقل کردے گی۔ اس سلسلے میں سینیٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جس کے ذمے اس بارے میں تجاویز دینا تھا۔ گزشتہ تیس برسوں میں سرتاج عزیز کے کمیشن کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹاگیا کہ لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ بس ان کے دکھ ختم ہونے والے ہیں اور ایک نئی صبح کا آغاز ہونے کو ہے۔
جب سرتاج عزیز کے کمیشن کے تھیلے سے بلی باہر آئی تو وہ بھی پریشان ہوئے جو عموماً ایسے کارنامے پر سر تان کر کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ ًہن دسوً۔ سرتاج عزیز کی تجاویز پر کی جانے والی ترمیمات کے بعد اس حکم نامے کو گلگت بلتستان آرڈر2018 کا نام دیا گیا اور گلگت بلتستان کی اسمبلی سے قانون ساز کا لفظ حذف کیا گیا ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اس اسمبلی میں اس ترمیم کے بعد قانون سازی جو پہلے کم تھی اب ختم کردی گئی کیونکہ اس کے بعد گلگت بلتستان کے مالک و مختار وزیر اعظم پاکستان قرار دئے گئے کیونکہ اس کے بعد ان کو ہر قسم کی قانون سازی کے ساتھ وہ اختیارات بھی دئے گئے ہیں جو ملک تو دور کی بات ان کے اپنے گھر میں بھی حاصل نہیں۔ کسی منچلے نے اس آرڈر کو پڑھ کر کہا ًگلگت بلتستان ایمپرئیل آرڈر2018 ً ۔
اس مجوزہ حکم نامہ کے مطابق وزیراعظم پاکستان جس کے انتخاب اور احتساب میں گلگت بلتستان کے لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا اس کو یہاں ججوں کی تعیناتی سے لیکر قیدیوں کی سزا ؤں کی معافی اور کسی بھی طرح کے حکم دینے کا حق دیا گیا اور اس کے خلاف داد رسی کے تمام دروازے بند کردئے گئے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی وزیر اعظم پاکستان کو گلگت بلتستان کے بنائے کسی بھی قانون کو ختم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ۔ اس حکم نامہ کو پڑھ کر ایسا لگا کہ کہ ہم اٹھارویں صدی میں رہ رہے ہیں جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے معاملات تاج برطانیہ کو حوالہ کیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان ہمارے شہنشاہ معزم ہیں ۔
اگر یہ تجاویز کسی وزیر اعظم کے علم میں نہیں تھیں تو یہ انتہائی کوتاہی تھی اگر کسی وزیر اعظم کی مرضی و منشا تھی تو انتہائی درجے کی آمریت کا مظہر ہے ۔ خاقان عباسی نے تو حلف لینے کے بعد تعجب کا اظہار کیا تھا جب اس کو بتا یا گیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان کونسل کے چئیرمین بھی ہیں ۔ ان تجاویز پر کام کافی عرصے سے ہوریا تھا تب نواز شریف بہ نفس نفیس خود وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان تھے۔
اگر یہ تجاویز نواز شریف کی فرمائش پر پیش کی گئی ہیں تو ہم ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ دینے والے کی اپنی دی ہوئی ووٹ کی توقیر کے معنی کو سمجھ سکتے ہیں اگر کسی چمچے نے اس کی خوشنودی کے لئے یہ کام کیا ہے تو وہ اس کا دوست نہیں دشمن ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اس کو کسی نے 1999 ء کے بھاری مینڈیٹ کی بدہضمی میں امیر المومنین بن جانے کا مشورہ دے کر رسوا کر دیا تھا۔
وہ تو خیر ہوئی کہ کابینہ کی منظوری سے پہلے نیشنل سیکیورٹی کونسل نے ان تجاویز کو لپیٹ کر رکھنے کو مشورہ دیتے ہوئے ایک بڑے حادثے سے بچا لیا۔ اب نواز لیگ کی کھسیانی بلی ان تجاویز اور ترمیمات کے اصلی نہ ہونے کا کھمبا نوچ رہی ہے مگر ۲۱ ویں صدی کے ابلاغی انقلاب میں ایسی بے تکی ہانکنے والے اپنا مذاق خود اڑانے کے علاوہ کچھ زیادہ نہیں کر پاتے۔ ایسی بیہودہ ترمیمات اور تجاویز کا خمیازہ تو ان کے حاشیہ برداروں کو سیاسی طور پر آنے والے دنوں میں بھگتنا ہی ہوگا کیونکہ اب یہ نوشتہ دیوار ہے۔
گلگت بلتستان سترسالوں سےمسئلہ کشمیر کی چکی میں پس رہا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں متنازع علاقے میں مقامی باختیار عبوری حکومتیں بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ ان سفارشات کی روشنی میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومتیں وجود میں آچکی ہیں صرف گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ جہاں کے لوگ اب بھی منتظر ہیں کہ ان کو بھی دنیا کے لوگوں کی طرح بنیادی حقوق میسر ہوں۔
گلگت بلتستان کے لوگ پوچھتے ہیں جن کشمیریوں کو دو ریاستوں کی ملکیت اور دو حکومتوں کی خود مختاری اور دو ملکوں میں شہری حقوق حاصل ہیں تو اس کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ان کو ہر قسم کے بنیادی شہری، سیاسی ، آئینی اور قانونی حقوق کے محروم کیوں رکھا گیاہے۔
شہید بھٹو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام گلگت بلتستان کے مسئلے پر منعقدہ سمینار میں پراقم الحروف ، مولانا شہاب اور ڈاکٹر شریف استوری کی باتیں کوئی نئی نہیں تھیں کیونکہ ہم گزشتہ 35 سالوں سے یہی کہتے آئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد ایڈوکیٹ کی حق ملکیت کی باتیں بھی نئی نہیں بلکہ یہ آواز 1980 کے مارشل لاء کی سٹیلمنٹ کی کوششوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کی تجدید ہے۔
بات سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سننے والی ہے جن کو گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں کچھ نظر آگیا ہے ۔ فرحت اللہ بابر نے اپنی یہ بات پہلی بار نہیں کی ہے وہ ہر بار ہر جگہ یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں جوالا مکھی دیکھ رہے ہیں۔
بات آئی ۔ اے رحمان کی سننے والی ہے جس نے انسانی حقوق کے ایک سمینار میں اپنی تقریر کے علاوہ پاکستان کے موقر انگریزی اخبار میں کالم لکھا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ناانصافی، جبر اور استبداد کو گلگت بلتستان میں جلد سے جلد روکنا ہوگا اور یہاں کے لوگوں کو انسان سمجھنا ہوگا ۔
بات تو سینیٹر تاج حیدر کی بھی سننے والی ہے جو بالکل ایسی ہی بات کہتے ہیں جس کا اعادہ فرحت اللہ بابر اور آئی اے رحمان نے کیا ہے۔ کرنل حسن ، جوہر علی ایڈوکیٹ ، قاسم شیر الیاٹ یہ ارمان اپنے دل میں لئے قبروں میں اتر گئے اور اب افضل علی شگری کے بہتے آنسو بھی اس کی مجبوریوں کی داستان سنا رہے ہیں۔
ان سب کی بات تو اس لئے نہیں سنی گئی کہ یہ سب ضرورت مند تھے اور ضرورت مند دیوانہ ہوتا ہے۔ مگر اب کی بار یہ سب کہنے والے فرحت اللہ بابر، آئی ۔ اے رحمان اور تاج حیدر پاکستان کی اشرافیہ کے لوگ ہیں جن کا پیغام بھی و ہی ہے کہ گلگت بلتستان کی دیوارپر زبردستی لکھنے سے پس دیوار لکھا بدل نہیں جائیگا ۔
♥