دنیا کی کوئی بھی زمین جس کی پیداوری صلاحیت صفر ہوجائے وہ دراصل اپنے آبی وسائل سے محروم ہو کربنجر اور بانجھ کہلاتی ہے۔ سرائیکی دھرتی پر بہنے والے تمام دریاؤں کو بیچنے والے باوردی اور بے وردی پنجابی سیاستدانوں کی نظر میں اب صرف ایک ہی دریا باقی رہ گیا ہے جو سندھ سرائیکی بلوچستان اور پشتونوں کی زندگی کی علامت اور معاشی خوشحالی کی ضمانت ہے جسے وہ اب آبادکاری کی غرض سے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ہتھیار ہے “کالاباغ ڈیم” جس کے استعمال سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور لہوری اشرافیہ ایک ہی وار میں سندھیوں سرائکیوں بلوچوں اور پشتونوں کے پیٹ کاٹ کر ان کی نسلوں کو اپنا معاشی غلام بناسکتی ہیں۔
سرائیکی دھرتی پربہنے والا سندھ ساگر ہماری سرائیکی دھرتی کا اکلوتا وسیلہ ہے جس سے ہماری شاعری سے لیکر روٹی کا نوالہ تک مشروط ہے تو دوسری طرف سرائیکی صوبہ کی تحریکیں روزبروز زور پکڑتی جارہی ہیں کیا ایسے میں ہم اپنے بچوں کا کل اور ان کا مستقبل “سرائیکی صوبہ” کی زرخیززرعی زمین کو سندھو دریا اور اسکے پانی کے بغیر قبول کر سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔
ہم ماضی سے یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ یہ ہمارے دریاؤں کو بیچ کھانے والے فوجی ڈکٹیٹرزجو ہمیں پیٹ پر پتھر باندھنے، ایٹم بم بنانے اورچلانے کا دن رات اسلامی جہاد کا درس دیتے ہیں یہ ایک دن ڈیم کی آڑ میں سندھ دریا کو بھی بیچ کھائیں گے ۔ بالکل ایسے جیسے بلوچستان کے قدرتی وسائل چین کو بیچ ڈالے اور آج بلوچوں کا پرسان حال کوئی نہیں۔ جدید دنیا کا سب سے مہلک ہتھیار جس پر انسان کی تہذیبی اورمعاشی بقاء کا انحصار ہے وہ اس خطہ پر بہنے والا دریا اورپانی ہوتا ہے ۔ ہمارا سندھ دریا جو ہمارا ہتھیار تو ہرگز نہیں ہوسکتامگر ہمارے اور ہماری آئندہ نسلوں کی زندہ رہنے کی یہی ایک امید اور آخری ضمانت ہے ۔
کسی لہوری پنجابی سیاستدان اور اسکے ماتحت پنجابی افسرشاہی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ نام نہاد “پنجاب” کے نام پر ہمیں ہمارے ہی پانیوں سے محروم کرکے پسماندگی کی طرف دھکیل دے۔ اگر آج سندھ بلوچستان اورپشتون اقوام کی قوم پرست عوامی تحریکیں متحرک نہ ہوتیں تو یقیناََ یہ کب کا اس دریا کو بیچ کھاتے۔
دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم کا متنازعہ منصوبہ دراصل پاکستان کے وفاق میں شامل ان قومیتوں کی اس پانی کے وسائل پر تنازع اور لڑائی ہے جس میں ہم سرائیکی پنجابی ہونے کی بناء پر شامل یا فریق نہیں ہیں یا شامل نہیں ہوسکتے۔ ہماری تقدیر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے جو پہلے ہی ہمارا ستلج چند سکوں کے عوض بیچ کر کھا گئے۔
ہم سرائیکی عوام ان سیانوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ سندھ دریا جو اپنی لمبائی چوڑائی میں سب سے زیادہ سرائیکی دھرتی پر بہتا ہے، ہر سال سیلابوں کی تباہی جسے ہم بھگتتے ہیں مگر اس کا ایک قطرہ بھی استعمال نہیں کرتے یا نہیں کرسکتے مگر یہ دریا اور اس کا پانی تو ہمارا پانی ہے تو پھر اس میں ہم فریق کیسے نہیں ہوسکتے ؟
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے ہے کہ آج تک جہاں بھی وفاق اور پنجاب نے ڈیم اور نہری پانی کے منصوبے بنائے ہیں وہاں پانی پہنچنے سے پہلے مقامی لوگوں کو بے دخل کیا جاتا رہا ہے پہلے فوجیوں جرنیلوں کو وہ قیمتی زرخیز زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ بندر بانٹ (الاٹمنٹ) کی گئیں پھر سنٹرل اور اپر پنجاب کی اشرافیہ اور بیوروکریسی کی چاندیاں لگیں جو اپنے پنجابی خاندانوں کی آباد کاریاں کرتے رہے اور آج سرائیکیوں سے پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں کالاباغ ڈیم بننے پر اعتراض کیا ہے ؟ کیا اب بھی سندھ بلوچستان پشتون اور سرائیکستان کے مقامی قوم پرست عوام کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی اجازت دیں گے؟ مقامی لوگ انہیں ” پانی کے مگرمچھ” کے نام سے جانتے ہیں۔
ایک سرپھرے پاگل فوجی آمر ایوب خان نے سرائیکی دھرتی کا ستلج دریا اس ملک کو بیچ دیا جس کا نام لیکر عوام کوڈرا کر ان پرغیرآئینی غیراخلاقی حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہیں مارشل لاء لگاتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ صوبہ سرائیکستان کی عوام نے کرنا ہے جو دراصل اس معاملے میں بنیادی فریق ہیں نہ کہ کسی لہوری پنجابی سیاستدان یا افسرشاہی نے۔ یہ کالاباغ کی دھرتی ، دریا اور اس پر بہنے والا پانی سرائیکی دھرتی کا ہے لہذا اس پر پہلا حق اس سے جڑے ہر فیصلے کا اختیار بھی سرائیکی عوام کا ہے۔
♥