ڈاکٹر خالد سہیل
ساقی فاروقی کی آپ بیتی پڑھ کر مجھے پہلی دفعہ اندازہ ہوا کہ وہ اتنے ہی بڑے نثر نگار ہیں جتنے بڑے شاعر۔ انہوں نے اردو زبان کے ساتھ دوستی ہی نہیں کی محبت بھی کی ہے اسی لیے انہوں نے اردو زبان میں اعلیٰ ادب تخلیق کیا ہے۔انہوں نے اپنی آپ بیتی میں اردو زبان کا تخلیقی استعمال کیا ہے اور اردو ادب کو نئے الفاظ اور جملوں کے تحفے عطا کیے ہیں۔
میں نے اردو زبان میں مندرجہ ذیل الفاظ پہلے کبھی نہیں پڑھے تھے
COLOR BLIND کے لیے رنگودھیا
مرج البحرین (سمندروں کا ملاپ)
مردود (مرد کی جمع)
MASTURBATION کے لیے خود وصلی اور DATING کے لیے وصالیہ
ساقی کے چند جملے ملاحظہ فرمائیے
’ کتابیں شخصیت پر دو طرح اثر انداز ہوتی ہیں اچھی کتابوں سے عاجزی اور بری کتابوں سے غرور بڑھتا ہے‘
’وہ اردو شاعری کے گلے میں بھی خشک نوالے کی طرح پھنسے ہوئے ہیں‘
’سڑک پر قدم رکھتے ہی میں نے کوہان اپنی پیٹھ سے کاٹ کر نسیان کے ریگستان میں پھینک دیا‘
ان الفاظ اور جملوں میں مزاح بھی ہے‘ طنز بھی ہے اور کاٹ بھی۔ساقی کی تحریروں میں مشتاق احمد یوسفی کی ادبی چاشنی اور جوش میلح آبادی کی انانیت گھل مل گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ ادب کی ریاست اور مذہب کی سیاست کے حزبِ اختلاف کے لیڈر بن گئے ہوں۔انہوں نے سب کی طرف تیر پھینکے ہیں شاعروں کی طرف بھی مولویوں کی طرف بھی اور نقادوں کی طرف بھی۔ انہوں نے سب پر تنقید کی ہے کسی کی شاعری پر کسی کی شخصیت پر اور کسی کے نظریے پر۔
وہ اپنے ادبی سفر اور ذہنی ارتقا کی کہانی سناتے ہوئے لکھتے ہیں ’ شروع میں ترقی پسندوں جیسی شاعری کی مگر بعد میں (پانچ سات سال کے بعد ہی) اپنی اور ان کی ایک پرت کی شاعری کا جانی دشمن ہو گیا‘ اپنی اس تبدیلی کا یہ جواز پیش کرتے ہیں ’پیشتر ترقی پسند شاعروں نے اصلی انسانوں کی نہیں بلکہ انسان کی اس شبیہہ کی پوجا کی جو ان ان کے رومانوی ذہنوں نے بنا رکھی تھی۔ ان کی ناکامی کا سبب یہ نہیں تھا کہ خدا نخواستہ ان کی نیت خراب تھی یا عوام کے لیے خیر کے جذبات بری چیز ہیں بلکہ یہ کہ شعری جمالیات اور شعری لسانیات کے ساتھ وہ اپنے اکہرے جذبات کی آبیاری نہ کر سکے۔۔۔گفتگو عوام سے ہے لیکن عوامی زبان کے خلاف ہیں‘
ساقی بظاہر ایک شاعر‘ نقاد اور نثر نگار ہیں لیکن درپردہ ایک ماہرِ نفسیات بھی ہیں۔ ان کا مشاہدہ‘ تجربہ‘ مطالعہ اور پھر تجزیہ قیامت کا ہے۔ وہ چند جملوں میں ایک انسان یا قوم کی نفسیات بڑی بے دردی سے پیش کر دیتے ہیں۔چاہے وہ انفرادی نفسیات ہو یا معاشرتی نفسیات وہ انسانی ذہن کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور جب لوٹتے ہیں تو اپنی بصیرتوں کو تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
’ہر جنونی مشتعل ہجوم اپنے ریلے میں نیکی بھلائی اخوت محبت جیسی تمام چیزوں کو بہا لے جاتا ہے۔ نفرت کا یہ ہیجانی لاوا انسانیت کی تمام تر اعلیٰ قدروں کو خاکستر کرتا چلا جاتا ہے۔ شاید ہم سب میں کوئی قاتل خنجر بکف بیٹھا ہوا ہے جو خون کی ہولی کھیلتا ہے اور موقع ملتے ہی امن و امان کو تہس نہس کر دیتا ہے‘
ساقی کے اندر ایک کمال کا خاکہ نگار بھی پوشیدہ ہے جو قلم سے کیمرے کا کام لینا جانتا ہے اور الفاظ سے ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ کردار اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ساقی ایسے کرداروں کے خاکے پیش کرتے ہیں جن سے انہیں یا تو بہت زیادہ محبت ہے یا حد سے زیادہ نفرت۔جن سے انہیں نفرت ہے ان کا خاکہ لکھتے ہوئے وہ کچھ زیادہ ہی محنت سے کام لیتے ہیں۔
وہ مولویوں کے بارے میں لکھتے ہیں ’ میں نے سیدھے سادے جذباتی کٹھ ملا خدائی فوجداروں کو ہمیشہ ذلیل و حقیر جانا اور سمجھا۔ وہ اس لیے کہ یہ سب منحوس صورت ہیں۔ ان کے پسینے کی بدبو سے ہمہ وقت بغل گیر بغلیاں‘ عوامی شاہراہوں پر استنجے ہاتھوں کی غلط اور فحش جنبشوں کے سبب شلواروں کے سامنے کے گھیروں میں موادی زرد دھبے وغیرہ وغرہ ایسی مکروہ شبیہیں ہیں جن سے میرے حد سے بڑھے ہوئے شاعرانہ احساسِ جمال کو سخت ٹھیس لگتی ہے بلکہ ان کمبختوں کے نام سے الرجی ہوتی ہے‘
ساقی کی آپ بیتی پڑھنے کے بعد میری رائے میں ساقی بنیادی طور پر ایک باغی ادیب اور انسان ہیں۔وہ ایسی ہر روایت سے بغاوت کرتے ہیں جو انسانوں پر پابندیاں عائد کرتی ہے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے ڈراتی ہے۔ساقی ایک آزاد خیال‘آزاد فکر اور آزاد منش انسان تھے۔ان کی گفتار اور کردار میں کوئی بعد نہیں تھا۔ وہ منافق نہیں تھے۔وہ ہمیں سعادت حسن منٹو کی یاد دلاتے تھے جو کہتے تھے کہ میں شراب پیتا ہوں تو میں میں الائچی نہیں ڈالتا کہ لوگوں کو بو نہ جائے اور ویشیا کے پاس جاتا ہوں تو کمبل اوڑھ کر نہیں جاتا کہ کوئی پہچان نہ پائے۔
ساقی فاروقی آزادی کے پیام بر تھے۔ وہ انسان کو مذہب کے پنجرے سے آزاد ہو کر انسان دوستی کی کھلی فضا میں اڑتے دیکھنا چاہتے تھے۔وہ اس روایت کے خالف تھے جس کے مطابق عورتیں ڈولیوں میں بھی برقع پہنتی تھیں۔ ساقی کو ایسے مذہب پر بھی اعتراض تھا جو عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔
ساقی کے اندر طنز بھی تھا اور مزاح بھی لیکن کبھی کبھار طنز دل آزاری کا روپ اختیار کر لیتا تھا۔ لکھتے ہیں ’ مجھ تک بذلہ سنجی فقرہ بازی اور مزاح فہمی کی سلطنت دست بدست آئی ہے ہاں دل آزاری میری اپنی ایجاد ہے‘
ساقی کے اندر غصہ بھرا رہتا تھا۔شاید اسی لیے ناصر کاظمی نے انہیںANGRY YOUNG MAN کہا تھا لیکن اکثر غصیلے نوجوان بڑھاپے تک پہنچتے پہنچتے مدبر اور تحمل مزاج ہو جاتے ہیں لیکن وہ بڑھاپے میں بھی جوانی کی طرح غصیلے تھے اس لیے ہم انہیں ANGRY OLD MAN بھی کہہ سکتے تھے۔
ساقی ایک منطقی انسان تھے اس لیے وہ خدا اور مذہب سے باغی تھے ان کی نگاہ میں ’ یوں بھی کسی منطقی دماغ میں خدا کے لیے گنجائش کم ہوتی ہے۔‘
جب میں ساقی کی آپ بیتی پڑھ چکا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہتر معاشرے کے خواب بھی دیکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا فلسفہ اور آدرش ان الفاظ میں بیان کیا تھا ’ میں کہتا ہوں زمین اس کی ہوتی ہے جو ہل چلاتا ہے بیج ڈالتا ہے اور فصل کاٹتا ہے۔ تمام غاصبوں کے خلاف ہرجانے اور بے دخلی کا دعویٰ دائر کرنا ضروری ہے۔ چاہے انصاف کے حصول کے لیے دس سال لگیں یا دس ہزار سال۔
میں بورژوا اور پرولتاری والی رومانی اور شاید دقیانوسی بحث میں الجھے بغیر صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ برِ صغیر کے پچھتر فی صد لوگوں کو غریبی اور بے حرمتی کے برزخ میں مستقل قیام غیر ضروری بھی ہے اور ناقابلِ قبول بھی۔ ہمیں حالتِ موجود STATUS QUO میں معلق کر دیا گیا ہے اور ہمارے حکمرانوں نے پچاس برس سے نہیں پانچ ہزار برسوں سے ہمارے ذہین لوگوں کو تعلیم سے بہرہ ور اس لیے نہیں ہونے دیا کہ کہیں ان غلاموں تک اس قسم کے پیغام نہ پہنچنے لگیں کہ RISE AND MUTINY ۔۔۔شیکسپیر
میرا ایک شعر ہے
اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا
میں نے ایک دفعہ احمد فراز سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی سوانح عمری کیوں نہیں لکھی تو فرمانے لگے آدھا سچ میں لکھنا نہیں چاہتا اور پورا سچ سننے کے لیے ابھی ہماری قوم تیار نہیں ہوئی۔ ساقی کی آپ بیتی پڑھ کر انہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ قوم پورا سچ سننے کے لیے تیا ر ہوتی جا رہی ہے۔
♦
One Comment