سماجی علوم میں تحقیق کا انحصار اعداد وشمار پر ہوتا ہے۔ اعداد و شمار مختلف انداز سے جمع کئے جاتے ہیں۔ کبھی پرائمری اور کبھی ثانوی ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اوراُس ڈیٹا کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ ایسا نتیجہ سماج کے اجتماعی رویوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ علمِ نفسیات، علمِ بشریات اور علمِ عمرانیات میں بعض اوقات کیس سٹڈیز تیار کرکے انفرادی، اجتماعی اورخاندگی زندگیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر کوئی تعمیم قائم کی جاتی ہے۔
ایک وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفہ، نفسیات اورادب وغیرہ کا میں اپنے بچپن ہی سے شائق رہا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اپنے اخذ کردہ نتائج دوستوں تک پہنچاؤں تاکہ وہ سماج میں ابھرنے والے تضادات، جو عموماً عدالتوں میں آتے رہتے ہیں، کو براہِ راست نہ سہی تو بلواسطہ طورپرجان سکیں، متعلقہ موضوع پراپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں تبادلہِ خیال بھی کیا جا سکے۔
اس لئےکبھی کبھار نام اور شناخت کو چھپا کرعدالتی کیسز کو کیس سٹڈیز کی شکل دے دیتا ہوں۔ ایسی تحریر میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ عدالتی اور قانونی قضایا سے بچتے ہوئے ایک ڈھیلے ڈھالے انداز میں بات کو آگے بڑھایا جا سکے جو عموماً ادبی اور افسانوی رنگ بھی اختیار کرجاتا ہے۔ میری اس کاوش کو کچھ دوست سراہتے ہوئے ان حقیقی واقعات کو افسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس سےاپنے اپنےاندازمیں لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے میری اس کاوش کو کچھ نہ کچھ پذیرائی بھی مل جاتی ہے۔ کبھی کبھار مختلف ردِعمل بھی سامنے آتا ہے۔ لوگ پیش کردہ قضایا سے وہ نتیجہ اخذ نہیں کرپارہے ہوتے، جو آپ انہیں بتانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات میرے لئے کوئی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہوتی۔ ہر بار میں کوشش کرتا ہوں کہ تحریر کو عام فہم، سادہ اور آسان بنا کربات عام قارئین تک پہنچا سکوں۔
اگر کوئی ایک سنجیدہ قاری بھی اس نتیجے پر پہنچ جائے جو آپ ان تک پہنچانا چاہتے ہیں توگویا آپ کی تحریر کا مقصد حاصل ہوگیا اور آپ لوگوں تک یہ پیغام کہ آخرایک لکھاری کیوں لکھتا ہے، کیا چیز اُسے لکھنے پر مجبور کرتی ہے، وہ کن کے لئے لکھتا ہے اور اپنی لکھتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے، پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
صورتحال اُس وقت ذرا پیچیدہ ہوجاتی ہے جب کوئی شخص یہ سوچنا شروع کردے کہ سماج میں اُس کا بہت ہی اونچا مقام تھا، اُس کی کوئی ناموس تھی، سماج میں یہ انوکھا واقعہ صرف اُس اکلوتے شخص کے ساتھ ہی پیش آیا ہے۔ پورے کا پورا سماج اُس کو جانتا ہے۔ سب اس تحریر کواُسی کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں اور اُسی سے ہی منسوب کررہے ہیں، اس وقت صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔
ایسی صورتحال کو” بہارکے موسم میں نابینا ہونے والے شخص کو ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے” جیسے ضرب المثل سے منسوب کئے جانے کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے یا اس کی مثال دیہات کے اُس ملک جیسی ہے جو کلف لگی پگڑی کے ساتھ میلے میں جاتا ہے۔ میلے کے ہجوم اور دھکم پیل میں کسی شخص کی ٹکر سے ملک کی پگڑی زمین پرگرجاتی ہے تو وہ یہ خیال کرنا شروع کردیتا ہے کہ سارے کا سارا میلہ ہی ملک کی پگڑی اچھالنے کے لئے لگایا گیا تھا۔ ایسے لوگ یہ دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ یہ بگاڑ سماج کے عمومی بگاڑ بنتے جارہے ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان ناچاکی ہو، وراثتی جائیداد کے جھگڑے ہوں، بھائی بہنوں کے درمیان جائیداد پر تنازعات ہوں، فراڈ ہو، بدعنوانی ہو، نام نہاد خونی رشتوں میں انہی جائیدادوں کی وجہ سے مسلسل رہنے والی نفسیاتی کشمکش اور دباؤ ہو، اب یہ انفرادی نوعیت کے معاملات نہیں رہے، یہ ہمارے سماج کی عمومی بیماریوں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔
لیکن پیٹی بورژوا نفسیات میں ہر شخص فرداً فرداً ایک جھوٹی شخصیت کا لبادہ اُڑھ کر پھر رہا ہوتا ہے اوربالعموم لوگوں کی اکثریت اس خوش فہمی میں پھرتی ہے کہ وہ ہی سماج کا بہت ہی اہم شخص ہے۔ اس کائنات میں اُس کی اپنی انفرادیت ہے ہر چند کہ اپنی اس انفرادیت کو وہ خود بھی کبھی ڈیفائن تک نہیں کرسکے لیکن اس خوش فہمی کے ساتھ جینا بہتر سمجھتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہی تو سب سے بڑی خوش فہمی اور خوبی ہے۔
♦