منیر سامی
گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت میں ایک کتاب Spy Chronicles : Raw ISI and the Illusion of Peace نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ ہنگامہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ یہ کتاب بھارت اور پاکستان کے اہم ترین ،بلکہ یوں کہیے کہ بدنام زمانہ جاسوسی اداروں ، پاکستانی آئی ایس آئی اور بھارتی راؔ ،کے دو سابق سربراہوں کی یاد داشتیں ہیں ، جو انہوں نے مختلف ذاتی ملاقاتوں میں ایک صحافی کے ساتھ گفتگو میں بیان کی ہیں۔
جاسوسی اداروں کے ان سابق سربراہوں میں ایک پاکستان کے سابق جنرل اسد ؔ درانی ہیں ، اور دوسرے بھارتی ادار ے راؔ کے سابق سربراہ، اے ایس دُلَت ہیں جن کا پورا نام امرجیت سنگھ دُلت ہیں۔ اس کتاب کے ذریعہ سے ان کئی باتوں کی تصدیق ہوتی ہے جو اب سے پہلے کئی پاکستانی دانشور کرتے رہے ہیں،جن میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہؔ، حسین حقانیؔ، عاقلؔ شاہ ، اور دیگر شامل ہیں۔
تصدیق اس بات کی ہے کہ پاکستان کی سیاست، امورِ خارجہ، اور اہم امور پر پاکستانی فوج کا حکم چلتا ہے۔ اور یہ کہ کئی بار پاکستان کا فوجی جاسوسی ادارہ آئی ایس آئی جو شہری حکومت کے طابع ہے ، حکومت اور خود فوج کی اجازت کے بغیر کئی خطرناک اقدامات اٹھا لیتا ہے جن میں بمبئی میں حملے اور اسامہ ؔ بن لادن کو پاکستان میں پناہ دینے کے معاملات شامل ہو سکتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ ان معاملات میں آئی ایس آئی کی دخل اندازی کو جنرل درانی نے مفروضہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد پاکستان اور بھارت میں امن قائم کرنے کی خواہش ہے۔
یہ دونوں مصنف اس سے پہلے بھی مشترکہ مضامین لکھ چکے ہیں جن میں سے ایک کینیڈ ا کی Ottawa University کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ا س کا عنوان Kashmir : Confrontation to Cooperation ہے۔ اس مضمون میں پاکستان اور بھارت میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں مسئلہ کشمیر کے حارج ہونے اور اس کاحل تلاش کرنے کے کی کوششوں کا ذکر ہے۔
کتابیں چھاپنا، یا سیاسی، فوجی ، عدالتی معاملات ، پر اظہار رائے کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ ہاں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنرل دارنیؔ وہ سابقہ فوجی جنرل ہیں جنہیں پاکستان کی سپریم کور ٹ نے اصغر خان کے مقدمہ میں پاکستان کی افواج کے پاکستانی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں میں مجرم قرار دیا تھا، اور جنہیں کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔
اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد یہ تصدیق ہوئی کہ جنرل درانی نے تقریباً وہی باتیں کی ہیں جو ابھی حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے کی تھیں۔ جب نواز شریف نے اس قسم کی باتیں کی تو پاکستانی کی فوج نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر کے نواز شریف کو مطعون کیا۔ اور پاک فوج کے پروردہ میڈیا نے نواز شریف پر غداری کے الزام لگائے۔ اب نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں نے سوال کیے کہ جب شہری اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو ان پر غداری کے الزام لگتے ہیں، اور اگر کوئی سابق فوجی ایسا کرتا ہے تو اسے کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس پر پاکستان کے فوجی اداروں نے جنرل دارنیؔ کو تحقیقات کے لیئے طلب کر لیا اور ان کو ملک چھوڑنا ممنوع کر دیا گیا۔
ہماری رائے میں یہ ضروری ہے کہ صاحبانِ فکر اور امن کے خواہاں اس کتاب کو غور سے پڑھیں۔ اس میں کئی خامیاں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کھلے ذ ہن سے اس کا مطالعہ یہ ضرور بتائے گا کہ بھارت اور پاکستان میں امن قائم کرنے کے لیئے دونوں ممالک کو پہلے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اقرار کرنا پڑے گا۔ اپنے سابقہ عہدوں کی بنیاد پر جنرل درانی اور امرجیت دُلت اس قسم کی کئی غلطیوں کے راز دان رہے ہیں۔ امن قائم کرنے کے لیئے لازم ہے کہ دونوں جانب سے یہ راز منظرِ عام پر آیئں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کرنا ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔ ان کے درمیان حالتِ جنگ خود ان کے عوام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے امن قائم کرنے کی کئی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس کتاب میں ان کوششوں کی ناکامی کے کئی اسباب بیان کیئے گئے ہیں ۔ جن میں دونوں جانب کی شدت پسند فکر کا بھی ذکر ہے اور مسئلہ کشمیر کا بھی۔
ہم آیندہ کسی تحریر میں اس کتاب پر تفصیلی بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ فی الحال یہ ضرور کہیں گے کہ اس کتاب کا پاکستان میں ابلاغ ضروری ہے۔ اور یہ کہ اس پرکسی قسم کی بھی پابندی ناجائز ہو گی۔ اسی طرح اس کتاب کی اشاعت پر جنرل درانیؔ کے خلاف کوئی بھی کاروائی نا انصافی ہو گی۔ ہم اپنے دانشوروں کے ساتھ یہ زیادتیاں ہمیشہ کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیئے۔
♦