فرقہ واریت کی سب سے بڑے مظاہر ہمیں مشرق وسطیٰ میں دیکھنے کو ملتے ہے جہاں پرسعودی عرب اور ایران کی سرپرستی میں اس لعنت کو فروغ مل رہاہے۔لعنت کے علاوہ اسے ایک منافقانہ جنگ کا
نام دینا بھی مبالغہ نہیں ۔کیونکہ بظاہران دونوں اسلامی ملکوں کی جانب سے یہ جنگ اسلام کی خدمت کے نام پر لڑی جارہی ہے لیکن حقیقت میں ان کا مقصدخطے میں اپنی دھاک بٹھانا اور تھانیداری قائم کرنا ہے۔منافقت کی جنگ تواسلئے بھی ہے کہ سعودیوں اور ایرانیوں کی بجائے اس جنگ کی قیمت صرف شام ، یمن ، عراق ، لبنان اور یہاں پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں کوچکاناپڑرہی ہے ۔
ایران اور سعودی عرب کے بیچ لڑنے والی اس جنگ کوپاکستان میں بھی کئی دہائیاں پہلے خوش آمدید کہاگیاتھاجس کوالوداع کہنے میں ہم بدقسمتی سے آج تک ہچکچارہے ہیں۔یوں تویہاں پر سنی اور اہل تشیع کے درمیان نظریاتی اختلافات کے آثا ر قیا م پاکستان کے عین ابتدائی برس ظاہر ہونے لگے تھے جب روزنامہ احسان جیسے اخبارات مارکیٹ میں لاکر اہل تشیع کے عقیدے کو نشانہ بنایا جاتاتھا۔
اگرچہ قیام کے بعداسی کی دہائی تک لاہورکے بعض اضلاع اور کرم وادی میں فرقہ واریت کے معمولی نوعیت کے واقعات رونماضرور ہوئے لیکن اس پورے عرصے میں خیرپور (سندھ )میں ہونے والاحملہ گویااپنی نوعیت کا پہلاتباہ کن حملہ تھا ۔
یہ حملہ عاشورہ کے دنوں میں وہاں ایک عزاداری اجتماع پرہوا جس میں سرکاری رپورٹ کے مطابق سو سے زیادہ عزادار ہلاک جبکہ متعدد زخمیوں نے خود کومردہ ظاہر کرکے جان بچائی۔ فرقہ وارانہ فسادات کو مہمیز اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں اس وقت ملی جب ایک طرف ایران میں خمینی کا انقلاب 1979 آیاا ور دوسری طرف افغانستان پر روسی افواج قابض ہوگئیں۔یہیں سے پاکستان میں مسلمانوں کے ان دو فرقوں کے درمیان پہلے سے موجودنظریاتی اختلافات خوب تشدد کی شکل اختیار کرگئیں۔ان فسادات کو ہوا دینے کیلئے یہاں پرایران اور سعودی عرب نے اپنی مداخلت اتنی بڑھادی کہ ہر ایک نے اپنے اپنے پراکسیز رکھنے کا اہتمام کیا۔
ایک طرف ایرانی انقلاب سے پاکستان میں مقیم شیعہ برادری کوایک الگ شناخت اور حوصلہ افزائی ملی تو دوسری طرف جنرل ضیاء الحق جیسے کٹر سنی العقیدہ حکمران کی متعصب اوربے لچک پالیسیوں نے فرقہ واریت کی آگ پر گویا جلتی کاکام کیا ۔اسی زمانے میں جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ملک میں اسلامی احکام کے تناظر میں زکواۃ وعُشر کے آرڈینینس کے اجراء پر بھی شیعہ فرقے کے لوگوں نے خوب احتجاج کیاتھا جس کے نتیجے میں اگرچہ بالآخراس قانوں سے شیعہ فرقے کواستثنیٰ ملی لیکن اس تصادم کی وجہ سے یہ دونوں فرقے ایک دوسرے کی مخالفت میں دوہاتھ مزید آگے ہوگئے۔
اس عرصے میں ایک دوسرے کے عقائدکے ابطال کرنے کیلئے سنی اور اہل تشیع کی منافرت پرمبنی مطبوعات اور لٹریچر کوبھی خاصافروغ ملا۔ ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کی کتاب ’’الحکمومۃ الاسلامیہ ‘‘ کے جواب میں یہاں مولانا منظور نعمانی نے’’ ایرانی انقلاب،امام خمینی اورشیعیت‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کو بہت پذیرائی ملی اور کئی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔اسی طرح چشتیہ سلسلے کے صوفی قمرالدین سیالوی کی طرف سے اہل تشیع کے خلاف پمفلٹ کی اشاعت ہو یا عبدالشکور لکھنوی کے اقوال اور کتابیں، وہ ذرائع تھے جو سنی اورشیعہ اختلافات کو بڑھانے کا سبب بن رہے تھے۔
چونکہ سیاسی طورپرشیعہ برادری اتنی قوی نہیں تھی یوں اس مقصد کوپوراکرنے کی غرض سے مولاناجعفر حسین نے 1979میں پنجاب کے ضلع بھکر میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی ۔طویل عرصہ بعد اس کانام تبدیل کرکے تحریک جعفریہ رکھاگیا۔دوسری طرف اس کے مقابلے میں حق نواز جھنگوی نے1985 میں ضلع جھنگ میں سپاہ صحابہ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔مولاناحق نواز جھنگوی پانچ سال بعد 1990 میں مارے گئے تو تنظیم کی قیادت ایثارالحق قاسمی نے سنبھال لی وہ بھی ایک سال بعدپراسرار طورپرمارے گئے ۔
بعدمیں اس تنظیم کی قیادت کی ذمہ داری مولاناضیاء الرحمن فاروقی اور پھرمولانا اعظم طارق نے سنبھالی جنہیں بھی اپنے پیشرووں کی طرح ماراگیا ۔ ایک اندازے کے مطابق سپاہ صحابہ کے دوہزار کے لگ بھگ کارکن فرقہ واریت کی اس جنگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔سپاہ صحابہ کو کاونٹر کرنے کیلئے پانچ سال بعد اہل تشیع نے بھی مسلح سپاہ محمد پاکستان نام کی ایک مسلح تنظیم بناڈالی جسے مشرف دور میں دوسری تنظیموں کی طرح کالعدم قرار دیاگیا۔سعودی عربیہ اور ایران کی اس جنگ میں حصہ بقدرِ جُثہ دونوں طرف سے بڑے بڑے عالم دین ،دانشور ، کارکن اور عام بے گناہ مسلمان انتہائی بے دردی کے ساتھ مارے گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
نائن الیون کے بعد ان حملوں کی ایک نئی لہر تب اٹھی جب ملک کا زمام اقتدار ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ہاتھوں میں جاچکاتھا۔ان سالوں میں جہاں کراچی میں چوٹی کے سنی العقیدہ علماء شہید ہوئے تو دوسری طرف کراچی میں شیعہ ڈاکٹرز کو قتل کیا گیا اور شیعہ برادری کے علماء ، خصوصاً محرم کے ماتمی جلوسوں کو نشانہ بنایاگیا۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے لوگوں کو اس جنگ کی بڑی قیمت چکانی پڑی ،حتیٰ کہ بعض اوقات یوں محسوس ہوتاکہ ان کی نسل کُشی کاارادہ کیاگیاہے۔
نائن الیون کے بعدکوئٹہ میں دہائیوں سے مقیم اس برادری کے لوگوں پراس نوعیت کاپہلا حملہ 4جولائی 2003کو کوئٹہ میں ایک مسجد پر جمعہ کی نمازکے دوران ہواجس میں53 کے قریب افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ۔اگلے سال محرم میں عزاداروں کی ماتمی جلوس پر خودکش حملے ہوئے جس میں بیک وقت ساٹھ افراد شہید ہوئے۔کوئٹہ شہر کے اندر معمول کے کام کاج میں مصروف ہزارہ لوگ ہوںیاایران جانے والے زائرین،ان سب کومتعددبار چن چن کے مارنا گویا معمول کی کاروائیاں بن گئیں۔
کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ایک ہی وقت میں انہیں سو کے قریب اپنے پیاروں کے جنازے ملے تھے۔یہی وہ حملے تھے جن کے بعد شہداء کے ورثاء نے اپنے پیاروں کے جنازے دفنانے سے انکار کرکے نواب رئیسائی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاتھا۔مجھے یاد ہے کہ بعد میں اسی وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف متاثر خاندانوں کو منانے کیلئے کوئٹہ آئے اور معاملے کو عارضی طورپر رفع دفع کیا۔
اب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت ہے تو بھی یہی لوگ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی تصویروں کے ساتھ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت لوگ خودکش حملوں میں مارے جاتے تھے جبکہ اب یہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسے عوامل ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت فرقہ واریت کی اس لعنت کو قابو کرسکی ، نہ ہی آج کی مسلم لیگی حکومت ان فسادات کو روکنے میں کامیاب نظرآتی ہے ؟
فرقہ واریت کی اس جنگ نے مسلمانوں کے بیچ نفرت اورعداوت کی جو دیواریں کھڑی کرکے ان کو ایک دوسرے پر جتنا برہم کیا ، اس کی مثال ہمیں ماضی بعید میں بہت کم ملتی ہے۔بلوچستان کے علاوہ کراچی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جہاں سیکولر دہشت گردوں نے روشنیوں کے اس شہر کے امن کوجتنا غارت کیا ہے اتنا ہی فرقہ پرست عناصر نے برسوں تک وہاں اپناکھیل کھیلاہے۔سو وقت آگیا ہے کہ دہشتگردی اور فرقہ واریت کے باہمی ربط سے انکار کرنے والوں کواب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ فرقہ واریت کی لعنت بھی اسی ماں کی اولاد ہے جس نے دہشتگردی کوجناہے۔
اسی طرح ریاست کو ہوش کے ناخن لیناچاہیے کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑنے والوں سے بھی حساب برابر کرنااب ناگزیر ہوچکاہے ۔اورساتھ ساتھ مذہب کاسیاسی استعمال کرنے والی جماعتوں کوبھی اس حوالے سے ایک الگ بیانیہ تشکیل دینا چاہیے ۔کیونکہ ریاست کے ساتھ ساتھ جب تک مذہبی سطح پربھی مسلمانوں کے ان دو فرقوں کے فاصلے کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہونگی ، تب تک خاکم بدہن مذکورہ دو برادر ملکوں کے ہرکارے اپنا کام کرتے رہیں گے۔
♦