لاہور میں سکھوں کا قتل عام یعنی چھوٹا گھولو گھارا

مجید شیخ

لاہور میں 7000 سکھ مرد اور 3000 عورتوں اور بچوں ، جنہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا تھا ، کو دہلی گیٹ کے باہر ذبح کیا گیا کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اسے تاریخ میں چھوٹا گھالو گھارا یا چھوٹا ہولو کاسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔

میں نے اپنے کالموں میں بے شمار دفعہ اس واقعے کا ذکر کیا ہے لیکن قارئین کا اصرار تھا کہ اس واقعے کو پورے پس منظر میں بیان کیا جائے۔ معصوم افراد کے اتنے بڑے قتل عام کی وضاحت ایک دکھ بھرا معاملہ ہے۔ یہ تفصیلات انتہائی دکھ بھری ہیں جس میں دہلی دروازے کے محلہ قصاباں کے قصاب مسلمانوں نے سکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کے گلے صرف اس لیے کاٹ کر کنوئیں میں پھینک دیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے کوسنہ 1947 میں تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا، اورفرقہ وارنہ فسادات ہوئے جس میں لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔شاید ہم چھوٹے گھالو گھارا(قتل عام ) سے ہی کچھ سیکھ لیں۔

محمود غزنوی، مغل شہنشاہ بابر اور منگول تیمور لنگ کے ادوار میں کئی قتل عام ہوئے تھے لیکن 1746 ء میں سکھوں کا جو قتل عام ہوا وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا تھا۔ جس کی تفصیلات انتہائی افسوس ناک ہیں ۔ اس قتل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سکھوں نے 1765 ء میں اقتدار سنبھالاجو 1849 ء تک جاری رہا۔

چھوٹے گھالو گھارا کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ 1739ء میں مغل بادشاہت زوال کا شکار تھی۔ 1707 میں شہنشاہ اورنگزیب کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہندوستان میں مغلوں کی کمزور سلطنت کو دیکھتے ہوئے افغان حکمران نادر شاہ نے لاہور اور دہلی پر حملہ کرکے یہاں سے دولت لوٹ کر افغانستان لے گیا۔

افغانوں کی لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پنجابی شاعر وارث شاہ نے کہا ’’ تمھارے منہ میں جو کچھ ہے وہ تمھارا ہے ، باقی سب کچھ احمد شاہ کا ہے‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب کا کسان طبقہ، جو کہ سکھوں کی کئی مثلوں پر مشتمل تھا، غیر ملکی حملہ آوروں کے خلا ف صف بندی کر رہا تھا۔

جب حملہ آور لوٹ مار کرکے واپس جانے لگے تو سکھوں نے ان کی روانگی کا انتظار کیا اور چھوٹی مثلوں پر مشتمل گھوڑا بردار سکھوں نے ان پر پیچھے سے حملہ کیااور لوٹا ہوا سامان واپس لے لیا۔ انہوں نے افغانوں کے قافلے پر حملہ کرکے ہزاروں جوان لڑکیوں کو بھی چھڑوایا جو افغان بطور لونڈیاں لے جارہے تھے۔ سکھوں نے ہر لڑکی کو اس کے گھر تک پہنچایا ۔ اسی دوران افغانوں نے دریائے سندھ پار کر لیا لیکن وہ مال غنیمت یعنی لوٹ مار سے حاصل کیے گئے سامان کے ایک بڑے حصے سے محروم ہو چکے تھے۔

نادر شاہ تک جب معلوم ہوا کہ سکھوں نے اس کے قافلے پر حملہ کیا ہے تو اس نے لاہور کے صوبیدار ذکریا خان کو حکم دیا کہ پنجاب میں ہر سکھ کو گرفتار کیا جائے اور ان کی گرفتار ی پر انعام مقرر کیا۔ اگر کوئی ایک سکھ کا سر لائے گا تو اسے 50 روپے جبکہ سکھ کی اطلاع دینے والے کو 10 روپے دیئے جائیں گے۔ سکھوں کی مزید تذلیل کرنے کے لیے انہوں نے امرتسر میں ’’ہر مندر‘‘ پر قبضہ کر لیا اور ان کے مقدس تالاب کو گائے کے گوبھر سے بھر دیا۔

سکھوں نے اس کا انتقام لینے کے لیے ذکریا خان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے 2000 سکھوں کا ایک جتھہ تیار کیا گیا جو مسلمانوں کے بھیس میں لاہور میں مختلف ٹولیوں کی شکل میں داخل ہوئے اور بادشاہی مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی کے لیے پہنچے ۔ انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق ذکریا خان باقاعدگی سے بادشاہی مسجد میں نما ز جمعہ ادا کر تا تھالیکن شاید اس دن اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آ سکا۔سکھوں نے درمیان میں ہی نماز چھوڑ دی اور ست سری اکال کا نعرہ لگاتے ہوئے لاہور سے نکل کر مضافات میں روپوش ہو گئے۔

ذکریا خان کا انتقال 1745ء میں ہوااور یحییٰ خان نے اس کی جگہ لی جس کا مالیاتی مشیر لکھپت رائے تھا۔ اس نے سکھوں کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑی مہم شروع اور شمال کی پہاڑیوں تک ان کا تعاقب کیا۔ اس دوران مختلف حملوں میں یحییٰ خان کا فوجی کمانڈر جسپت رائے، جو کہ لکھپت رائے کا بھائی تھا، مارا گیا۔ اس قتل کے بعد افغان حکمرانوں نے سکھوں کے خلاف مہم تیز کر دی۔ انہوں نے پہاڑوں کے ارد گرد فوجی تعینات کیے اور سرچ مہم شروع کی۔ 

اس طرح انہوں نے ہر بھاگنے والے سکھ کو اس کی فیملی سمیت پکڑا۔ تاریخ دان سید محمد لطیف ( تاریخ پنجاب اور تاریخ لاہور کے مصنف) لکھتے ہیں ہزاروں سکھوں کو ذبح کر دیا گیا اور ان کی لاشیں گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیں اور جب روتے دھوتے ان کے لواحقین آتے تو انہیں بھی قتل کر دیا جاتاتھا۔

چھوٹے گھالو گھارا کا آغاز ہو چکا تھا۔ افغان حکمران نے افغانستان سے مزید سپاہی منگوائے اور ہمالیہ کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں کو حکم دیا کہ اپنی اپنی ریاستوں میں عوام کو سکھوں کی تلاش میں لگا دیا جائے۔ اس مہم کے نتیجے میں ہزاروں سکھ قتل ہوئے اور جو پکڑے گئے انہیں لاہور لایا گیاتاکہ ان کا مذہب تبدیل کیا جا سکے۔ مختلف ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ 7000سکھ اور 4000 عورتیں اور بچے جن کے چہروں پر کالک ملی گئی تھی کو دہلی گیٹ کے باہر اکٹھا کیا گیا۔

لاہور کے مقامی سکھوں کو بھی پکڑ لیا گیا۔ پہلے جتھے کو درجنوں مسلمانوں نے ذبح کیا کیونکہ ا نہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پہلا جتھہ 10 مارچ1746 کو ذبح کیا گیا کیونکہ کوئی بھی سکھ اپنا مذہب تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکھوں کو اپنے مذہب اور اقدار پر کتنا یقین تھا۔

ہر روز پنجاب کے مختلف حصوں سے سکھوں کو پکڑ کر انہیں پیدل لاہور لا یا جاتا حتیٰ کہ گورداسپور جو کہ لاہور سے 82 میل کے فاصلے پر تھا، انہیں پیدل لاہور لایا گیا۔ انہیں جانوروں کی طرح باندھ دیا جاتا ۔ کچھ سکھ جو زیادہ تر راوی دریا پار کرکے بھاگنے میں کامیاب ہوئے تو مقامی راجاؤں کی مدد سے انہیں جنگل میں گھیرا ڈال کر پکڑ کر ذبح کیا گیا۔کئی سکھ افغان حدود کو توڑتے ہوئے ستلج اور بیاس کے سیلابی پانی میں کود گئے اور بچنے میں کامیاب ہوگئے۔

محتاط اندازوں کے مطابق 7325 سکھ مرد اور 4100 عورتوں اور بچوں کے لیے چھوٹے گھالو گھارا کے لیے سٹیج تیار ہو چکا تھا۔ابھی قتل عام شروع نہیں ہوا تھا کہ صوبیدار یحییٰ خان نے حکم جاری کیا کہ اگر کوئی لفظ ’’گورو‘‘ ادا کرتا ہے تو اسے مقدمہ چلائے بغیر ہی قتل کر دیا جائے۔مزید حکم جاری کیا کہ لفظ ’’گڑ‘‘ ( جو کہ گنے کے رس سے بنتا ہے) بھی نہیں بولا جائے گا کیونکہ وہ ’’گرو‘‘ سے ملتا جلتا ہے۔

ان حالات میں 10 مارچ 1746 کو سکھ قیدیوں جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے کو اندرون لاہور کی گلیوں میں منہ کالا کرکے پھرایا گیا۔ کئی پرہیز گار مسلمانوں نے ان پر پتھر مارے اور کئی نے ان پرگندگی پھینکی۔

ہر روز 1500 سکھ مردوں ، عورتوں اور بچوں کو ایک جلوس کی شکل میں دہلی دروازے کے باہر لایا جاتا۔ جہاں ان سے کہا جاتا کہ اسلام قبول کرو۔یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ کوئی ایک سکھ بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے پر تیار نہ ہوا اور ست سری اکال کا نعرہ لگاتا۔ انہیں فوری طور پر قصابوں کے حوالے کر دیا جاتاجو ان کی گردنیں اتارنے کے لیے کھڑے ہوتے۔ سات دن اور سات راتیں یہ قتل عام جاری رہااور افغان حکمران خوش ہوتے رہے کہ انھوں نے سکھوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔یہ ایک بڑی غلطی تھی اس قتل و غارت سے سکھوں کی تمام مثلیں دوبارہ اکٹھی ہوئیں اور آخر کار انھوں نے لاہور اور پنجاب پر قبضہ کر لیا۔

اگر آپ کبھی اندرون لاہور جائیں تو کچھ دیر کے لیے شہید گنج کے علاقے میں جائیں۔ لنڈا بازار کے نزدیک کسی سے گوردوارہ شہید گنج کاپوچھ لیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا کنواں ہے جس میں 3500 مرد اور عورتیں ذبح کرکے پھینکے گئے تھے۔ اگر ہم فرقہ وارانہ اور مذہبی مائنڈ سیٹ سے بالا تر ہو کر سوچیں تو ان لوگوں نے اپنی زمین کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں تقسیم سے پہلے یہ ہمارے ساتھ ہی تھے۔ انہوں نے غیر ملکی قوتوں کو نکال باہر کرنے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ یہ غیر ملکی قوتیں وہحملہ آور تھے جو اس علاقے کے لوگوں کو غلام بناتے اور ان کی دولت کو لوٹتے تھے۔ 

اصل مضمون پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

https://www.dawn.com/news/1404475

مترجم نوٹ: اس مضمون سے ایک بات مترشح ہوتی ہے کہ افغان حکمرانوں نے اسلام کے نام پر سکھوں کا قتل عام کیالیکن جب سکھ برسر اقتدار آئے تو انہوں نے مذہب کے نام پر بالکل انتقام نہیں لیا اور نہ ہی مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ سکھ مذہب قبول کریں۔رنجیت سنگھ نے جب کابل فتح کیا تو اس نے افغانیوں سے مذہب کے نام پر کوئی انتقام نہیں لیا تھا۔1947 میں جو فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے تھے اس کی ابتداء بھی مسلمانوں (راولپنڈی سے )نے کی تھی ۔ مسلمان آج بھی غیر مسلموں (چاہے ان کا تعلق کسی مسلم فرقے سے ہی کیوں نہ ہو )کو ذبح کر رہے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب محبت اور امن کا پیغام دے رہے ہیں۔

4 Comments