سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی ملک میں موجود تیسری صنف یعنی خواجہ سراؤں (مناسب لفظ ٹرانس جینڈر ہے)کے وجود کو تسلیم کرنے اور انھیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے بل پاس کر دیا ہے۔ دا ٹرانس جینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس بل 2018 جو اب ملکی قانون کا حصہ بن چکا ہے، ٹرانس جینڈرز کی شناخت کو باعزت طور پر تسلیم کروانے میں مدد دے گا۔ اس بل سے ٹرانس جیندرز کو کافی سارے حقوق حاصل ہوجائیں گے۔
ٹرانس جینڈرز کے کہے پر یقین کیا جائے گا ، انہیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونے کی اذیت برداشت نہیں کرنی پڑے گی، ٹرانس جینڈرز کو تعلیم، صحت اور پیشے یا کاروبار کے چناؤ اور ایک عام انسان کی طرح جینے کا حق ملے گا۔ ٹرانس جینڈر طبقہ جس کو کبھی انسان نہیں سمجھا گیا آج اسکو یہ حق دے کرحکومت نے اپنی اہم زمہ داری پوری کر دی ہے۔ اور کوئی شقی القلب ہی ہوگا جو اس قانون سازی پر پر ناراض ہوگا۔
میں ایک سماجی سائنسدان اور محقّق ہوں، کراچی کی ایک معروف یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہوں۔ ۔ میری اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق کا ایریا بھی ملتے جلتے مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ اس ناطے اس خوشی کے اس موقع پر اچانک ہی ایک خدشے نے مجھے گھیر لیا ۔ ہوا یہ کہ جیسے ہی میں نے سنا کہ بل پاس ہوگیا ہے۔ میں نے فوراً گوگل پر سرچ کر کے اس بل کو ڈاؤن لوڈ کر لیا ا۔ بِل کی اسٹڈی کے دوران تین اہم شقوں پر میری نظریں جم گئیں اور دماغ میں سوالات جنم لینے لگے۔(وہ شقیں تو آپ دوست نیچے پڑھ سکتے ہیں)۔
ان شقوں کو اگر خواتین کی سلامتی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو خدا نا کرے کہ ایسا ہو، مگر خواتین کی سلامتی کے حقوق ضرور خطرے میں پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اسکی زندہ مثالیں ہمیں ویسٹرن معاشروں خصوصاً برطانیہ اور امریکا میں مل جاتی ہیں۔ جہاں قانون ساز اب عورتوں اور مرد وں کے مسائل کے ساتھ ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈرز مسائل سے بھی سے بھی نبرد آزما ہیں۔
خواتین کے بہت سے معاملات جو کہ انتہائی پرائیویٹ نوعیت کے ہوتے ہیں جس کے لئے خواتین کو مکمل پرائیوسی درکار ہوتی ہے۔ اور اگر پبلک مقامات جیسے اسکول، کالج، شاپنگ مال جہاں مرد اور عورت کے لئے علیحدہ ٹوائلٹس ہوتے ہیں، تو چونکہ اب قانون بن گیا ہے ایک ایم ٹی اایف ٹرانسجینڈر (مرد سے عورت کی طرف تبدیل ہونے والی جنس)کو بھی خواتین کے ٹوائلٹس میں جانے کی اجازت ہوگی تو میرا خدشہ یہ ہے کہ کیا کوئی بھی عورت خود کو ان ٹرانس جینڈرز کی موجودگی میں محفوظ تصور کرے گی؟
کیونکہ ایم ٹی ایف ٹرانس جینڈر کو تو شائد حوائج ضروریہ سے ہی فارغ ہونا ہو مگر اس توائلٹ میں اس ہی وقت اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آنے والی لڑکی کی پرابلم تو اس سے بھی بڑھ کر ہوسکتی ہے اور کیا یہ لازمی ہوگا کہ ہر ایم ٹی ایف سرجیکل پراسیس سے گزر کر اپنا مردانہ عضو (جو اکثر حالت میں فنکشنل ہوتا ہے) قطع کراچکا ہو ، اور سرجری کے بعد ہونے والی ہارمون تھراپی (جو ایک ٹرانسجینڈر کو عور ت کی شکل اختیار کرنے میں مدد دیتی ہے) کو کسی وجہ سے ترک کر چکا ہو، اوراس کا مردانہ پن فنکشنل ہو، تو ایسے حالات میں اُس لڑکی کی حفاظت کی زمّہ داری کون لے گا۔
دوسری بات جو کھیل وغیرہ کے تناظر میں سوچی جاسکتی ہے کہ عورت اور مرد فزیکلی ایکدوسرے سے مختلف ہیں اگر کل کو وومن کرکٹ ٹیم میں بھی انکو شامل کیا جائے یا اگر باکسنگ میں عورت اور ٹرانس جینڈر فی میل مدمقابل آجائیں تو کون جیتے گا اور چوٹیں کس کے حصے میں آئیں گی وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے بہت سارے خدشات ہیں جو مجھے اس وقت لاحق ہیں مگر ہمیں اب اس پر ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ ان ممکنہ مسائل سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ہم لوگ کس طرح سے تمام ٹرانس جینڈرز افراد کے حقوق کو بہتر بنیادوں پر بغیر کسی وائلیشن کے محفوظ کر سکتے ہیں؟… دوستوں سوچنا ضرور ہے کیونکہ ہم سب ایک ہیں۔
♦