چینی نیو سلک روڈ پالیسی ئی ملکوں میں ترقی کا باعث بن رہی ہے تو اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین اس پالیسی کے تحت کئی ممالک کے ذخائر کے حصول کے لیے انہیں قرضے کے جال میں پھنسا رہا ہے۔
یورپی یونین نے بعض ایشیائی ممالک میں چین کی ’نیو سلک روڈ پالیسی‘ کا متبادل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک اِس نئی پالیسی کی منظور دیں گے اور اس کا نام ’ ایشیا کنکٹیویٹی اسٹریٹیجی‘ یا ایشیائی رابطہ کاری کی حکمت عملی رکھا گیا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اس اسٹریٹیجی کے حوالے سے رکن ملکوں کے علاوہ بعض ایشیائی ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔ موگیرینی کے مطابق رابطوں میں شریک ایشیائی ممالک نے اس یورپی اپروچ میں خاصی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کا بنیادی مقصد ایشیائی ممالک کی اقتصادی ترقی میں مضمر ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے وہاں کی مقامی آبادیوں کو روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے اور مجموعی معاشی ترقی مقامی لوگوں کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکے گی۔ موگیرینی نے ان ملکوں کے نام نہیں بتائے جن سے رابطہ کاری جاری ہے۔
اس پالیسی کے تحت یونین مختلف ایشیائی ملکوں میں ٹرانسپورٹ، ڈیجیٹل اور توانائی کے رابطوں کو ماحول دوست اور بین الاقوامی لیبر معیارات کے تحت آگے بڑھائے گی۔ یہ پالیسی کن ممالک میں متعارف کرائی جائے گی، اُن کے نام ابھی تک عام نہیں کیے گئے لیکن اندازوں کے مطابق بیشتر کا تعلق مشرق بعید کے قدرے کم ترقی یافتہ ممالک سے ہو سکتا ہے۔
اس پالیسی کو اگلے ماہ ایشیائی اور یورپی لیڈروں کی سمٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے حکام نے واضح کیا ہے کہ اُن کی نئی حکمت عملی کسی بھی طور پر چین کی ’نیو سلک روڈ‘ کے جواب میں شروع نہیں کی جا رہی۔ امکاناً یہ سمٹ یورپی یونین کے صدر دفتر برسلز میں منعقد کی جائے گی۔
دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ اس کو ایسے وقت میں متعارف کرایا جا رہا ہے جب چین کی اربوں ڈالر کی پالیسی کی چمک ماند پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ کئی ممالک میں اس چینی پالیسی پر خدشات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ سری لنکا کے بعد رواں برس اگست میں ملائیشیا نے بھی بیجنگ کے شروع کردہ تین پراجیکٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کے مطابق نیو سلک روڈ پالیسی کے تحت مختلف ممالک کے ساتھ چین کی تجارت کا حجم پانچ ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ کئی ملکوں میں چین کی جانب سے ساٹھ بلین امریکی ڈالر سے زائد کی براہ راست سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
DW