ارشد بٹ
جناب وزیراعظم عمران خان صاحب آپکے دونوں فرزند اپنی غیر مسلم ماں کی گود میں پلے بڑھے۔ اب یہ اپنی غیر مسلم ماں کے خاندان کی زیر نگرانی پرورش پا کر تعلیم اور تربیت کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ انکی مادری زبان نہ اردو، نہ پنجابی اور نہ پشتو۔ پاکستانی تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے انکی دوری ایک مسلمہ حقیقت۔ مگر عوام نے ووٹ دیتے وقت نہ آپکے بچوں کے مذہبی عقیدے کو مد نظر رکھا اور نہ ہی انکی مغربی تہذیبی ماحول میں پرورش پر انگلی اٹھائی۔ وزیر اعظم صاحب آپکو یہ یاد دلانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ پاکستان کے عوام نے اپنے راہنما منتخب کرتے وقت کبھی بھی انکی اہلیہ، اولاد یا خاندان کے عقائد کو زیادہ اہم نہیں سمجھا۔
آپکی تاریخی یاداشت کو تازہ کرتےہوئے یہ دہراتا چلوں کہ علامہ اقبال نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک غیر مسلم یورپین آیا ملازم رکھی ھوئی تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اقبال یا انکی اولاد کے عقیدے یا مغربی تہذیبی تربیت پر اعتراض نہ کیا۔ وزیر اعظم صاحب آپ اقبال کو اپنا نظریاتی رہبر اور جناح کو سیاسی قائد مانتے ہیں ۔ اب ذرا قائد کے بارے میں سنئے۔
قائد نے تو آپکی طرح شادی بھی غیر مسلم خاتون سے کی۔ اور قائد کی واحد اولاد انکی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے زندگی کا ناطہ جوڑ لیا۔ قائد کے بارے میں آپکو یہ بھی معلوم ھو گا کہ انکا تعلق ایک بہت ہی چھوٹے سے مسلم فرقے سے تھا جس پر اکثریتی مسلم فرقے کے علما تنقید کے نشتر چلاتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں نے نہ قائد کے عقیدے کے متعلق سوچا، نہ انکی نجی زندگی پر حرف اٹھایا۔ مسلم علما کی فتوے بازی اور شدید تنقید کے باوجود مسلمانوں نے جناح کو اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر بنایا۔ جنہیں اب قائد اعظم کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب تاریخ کی بات چل نکلی ہے تو ذرا تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں۔ اس ملک کے علما نے عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے دئے اور عورت کی حکمرانی کو عذاب الہی سے تعبیر کیا۔ 1964 کے صدارتی الیکشن میں متحدہ پاکستان کے عوام نے علما کے فتووں کو یکسر مسترد کر دیا۔ مشرقی پاکستان یعنی مو جودہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے صدارتی الیکشن میں قائد اعظم کی ہمشیرہ فاظمہ جناح کو فوجی آمر ایوب خان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ووٹوں سے سرفراز کیا۔
مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان کے عوام نے فاظمہ جناح کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر ایوب خان کی قیادت میں فوجی جنتا دھاندلی سے کام نہ لیتی تو فاطمہ جناح نہ صرف مسلم دنیا کی پہلی منتخب سربراہ مملکت ھوتیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی منتخب صدر ھوتیں۔
اب ذرا بے نظیر بھٹو شہید کا ذکرہو جائے۔ کیا اس ملک کے علما اور رجعت پسندوں نے بے نظیر شہید کے خلاف فتوے بازی نیہں کی۔ اور پھر کیا عوام نے بے نظیر شہید کو دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب نہیں کیا۔ فتووں کی بات چلی تو بتاتا چلوں کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی علما کے فتووں کی بھر مار سے نہ بچ سکے۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کو آئین، ایٹمی پروگرام اور پاک چینی تعلقات کے بانی کی حثیت سے جانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعطم لیاقت علی خاں بھی علما کے فتووں کی زد میں رہے۔ دو قومی نظریہ کے بانی تصور کئے جانے والے سر سید احمد خان بھی علما کے فتووں سے محفوظ نہ رہ سکے۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب یہ آپ کے علم میں ہو گا کہ 1970 سے اب تک جتنے عام انتخابات ہوئے۔ ان سب میں عوام نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو ملک پر حکمرانی کا حق تفویض نیہں کیا۔ مذہبی رجحان کو پروان چڑھانے کی رہاستی پالیسی کے باوجود عوام نے مذہبی جماعتوں کو ہر بار شکست سے دوچار کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکی اور سعودی مدد سے نام نہاد افغان جہاد کی پیداوار مسلح مذہبی گروھوں کی دہشت گردی نے مذہبی جماعتوں کی بلیک میلنگ کو بڑھاوا ضرور دیا ہے۔
عمران خان صاحب سر سید احمد خان، علامہ اقبال، قائد اعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے۔ تاریخ میں انکا نام سنہری حروف میں لکھا جا چکا ہے۔ آپ تو بہادری سے حالات کا مقابلہ کرنے اور بلیک میل نہ ھونے کے دعویدار تھے۔ مگر عاظف میاں کے معاملے میں تو آپ کے قدم دو دن میں اکھڑ گئے۔ آپ نے کرسی کی خاطر بلیک میل ھونا بھی قبول کر لیا اور بہادری تو دور دور کہیں نظر نیہں آئی۔ یہاں عرض ہے کہ عالمی کارپوریٹ سرمایہ داری کے اقتصادی ماہر عاطف میاں
ملکی معیشت میں بہتری یا غریب عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کیسے لا سکتے ہیں۔ وہ بھی آپکو ٹیکس نیٹ وسیع کرنے، دفاعی اخراجات کم کرنے اور ایکسپورٹس بڑھانے کا مشورہ دیتے۔ ریاستی اثاثے پرایئویٹائز کرنے کا کہتے۔ دفاعی اخراجات کم کرنا آپ کے اختیار سے باہر۔ ایکسپورٹ کیسے بڑھائیں گے۔ باہر کی دنیا کو بیچنے کے لئے آپ کے پاس کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلویز اور دیگر ریاستی ادارے بیچ کر کچھ حاصل کر لیتے جو کہ آپ کرنے کی کوشش کریں گئے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا آپ کے لئے جان جوکھوں کا کام ہوگا۔
زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی سب سے زیادہ مزاحمت تو حکومتی صفوں سے ہوگی کیونکہ بڑے بڑے جاگیردار تو آپکی کابینہ میں بیٹھے ہیں۔ نئے شہری تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا کسی جیلنج سے کم نہیں۔ پیشہ ور گروپوں یعنی وکلا، ڈاکٹروں وغیرہ پر ہاتھ ڈالنا بھی آپ کے بس سے باہر لگتا ہے۔ آپ نے گیس، کھاد اور بجلی وغیرہ کی قیمتیں بڑھا کر آئندہ ٹیکس پالیسی کے خدوخال واضع کر دئے ہیں۔ آپکے وزیر خزانہ بھی تو کارپوریٹ سرمایہ داری کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے عوام پر بے دریغ ٹیکسوں کی بھر مار کر کے غریب عوام کا خون نچوڑنے کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب اب آپ عالمی اداروں سے قرضہ اٹھانے کے مشوروں کے لئےبھی تیار رہیں۔ چیریٹی اور چندوں سے ملک چلنے سے رہے۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب مذہبی انتہا پسندوں کے آگے ایک بار پسپائی آنے والے دنوں میں مسلسل پسپائیوں کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب آپکو کس بات کا ڈر ہے۔ مسلح افواج کی طاقت آپ کے ھمنوا ہے۔ آپ نے خود فرمایا سول ملٹری اختلاف محض ایک متھ ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔ آپکو تو اپوزیشن سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ زرداری صاحب آپکی پشت پر اور شہباز شریف ابھی تک ہمت نہیں دکھا سکے۔ میاں نواز اور مریم کو تو پہلے ہی آپکے راستے سے ہٹادیا گیا۔ بلاول بھٹو نے یوم دفاع پر کرشمہ دکھایا مگر بلاول نے تو پارلیمنٹ کے پانچ سال پورا کرنے کا پہلے ہی کہہ دیا۔
♦