ہندوستان نے دریائے کابل پر بند کی تعمیر شروع کردی ہے

آصف جیلانی 

دیا میر بھاشا اور مہمند بند کی تعمیر کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی غرض سے چیف جسٹس اور وزیر اعظم عمران خان کی اپیلوں میں پاکستان ایسا الجھا ہوا ہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسے سرحد پار افغانستان سے اس مہیب خطرے کا کوئی احساس نہیں ہے جو افغانستان میں ہندوستان کی طرف سے تعمیر کئے جانے والے متنازعہ بند کی صورت میں ابھر رہا ہے۔

معلوم نہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پچھلے دنوں کابل کے دورہ میں صدر اشرف غنی اور افغان وزیر خارجہ سے اس متنازعہ بند پر کوئی بات چیت کی یا نہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اسلام آباد میں اس مسئلہ کی سنگینی کا ادراک نہیں یا پاکستان مصلحتا خاموشی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا نے بھی پر اسرار چپ سادھ لی ہے۔ 

ہندوستان نے اس ماہ سے 23کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت اور عالمی بنک کے تعاون سے دریائے کابل پر شہتوت بند کی تعمیر شروع کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اس بند کا نشیبی ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے دریائے کابل سے پانی کے بہاو میں بے انتہا کمی کی صورت میں سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

دریائے کابل، وسطی افغانستان میں ہندو کُش کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور سات سو کلو میٹر کا سفر طے کرتا ہوا مشرق میں کابل، سروبی اور جلال آباد سے ہوتا ہوا پاکستان میں خیبر پختون خواہ میں داخل ہوتا ہے اور پشاور اور نو شہرہ سے ہوتا ہوا اٹک کے قریب ، دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ 

دریائے کابل کا طاس ، افغانستان کے ۹ صوبوں اور پاکستان کے ۲صوبوں پر محیط ہے ۔ یوں اس پر دو کروڑ پچاس لاکھ افرادکی زندگی کا دارومدار ہے۔ دارالحکومت کابل کے قریب چہار آسیاب کے علاقہ میں دریاے کابل پر شہتوت بند کی تعمیر کے منصوبہ کے حق میں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ کابل کی زمیں بنجر ہونے کی وجہ سے جہاں سال میں صرف 362ملی میٹر بارش ہوتی ہے ، پانی کی فراہمی کے لئے یہ بند لازمی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چہار اسیاب میں صرف دریائے کابل پر بند کی تعمیر سے 147ملین کیوبک پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ 

یہ صحیح ہے کہ افغانستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ ہے لیکن سرحد پار پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے ۔ پاکستان میں وادی پشاور، ٹانک کے متعد د علاقوں ، ڈیرہ اسمعیل خان ، بنوری اور شمالی وزیر ستان میں زراعت اور پینے کے پانی کے لئے تمام تر دارومدار دریائے کابل پر ہے ۔ بلا شبہ افغانستان میں شہتوت بند کی تعمیر سے پاکستان بڑی مقدار میں دریائے کابل کے پانی سے محروم ہو جائے گااور دریائے سندھ میں پانی کے بہاو پر بھی سنگین اثر پڑے گا۔ اگر افغانستان نے دریائے کابل پر مزید بند تعمیر کئے تو وارسک بند ، پشاور ، چار سدہ اور نو شہرہ کے اضلاع پانی سے محروم ہو جائیں گے اور خطرہ ہے کہ وادی پشاور سے لے کر شمالی وزیر ستان کا پورا علاقہ بنجر ہوجائے گا اور ریگستان کی صورت اختیار کر لے گا۔ 

دریائے کابل پر افغانستان کا مستقبل میں ۱۲ ہایڈو پاور اسٹیشن قائم کرنے کا منصوبہ ہے ، جن سے 1177میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی ۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد ، افغانستان دریائے کابل سے اپنی ضرورت کے لئے 4.7 مکعب فٹ پانی ذخیرہ کرے گا اور نتیجہ یہ کہ پاکستان کو دریائے کابل سے چند قطرات ہی پانی مل سکے گا۔ 

دفاعی ماہرین کو خطرہ ہے کہ شہتوت بند کی تعمیر میں ہندوستان کے سرمایہ اور اسکے مرکزی رول کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ اور شدید کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورت میں ہندوستان ایک طرف دریائے سندھ کا پانی روکنے کی کوشش کرے گا اور دوسری جانب ہندوستان دریائے کابل پر شہتوت بند سے پاکستان کو پانی سے محروم کر کے پاکستان کی معیشت کو مفلوج کر سکتا ہے ۔ یوں پاکستان دو محاذوں سے نشانہ بن سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں جوہری طاقت پاکستان کے لئے اپنے دفاع کے لئے جوہری مدافعت ہی آخری حربہ رہے گا جو پورے بر صغیر کو تہہ و بالا کردے گا۔ اس لحاظ سے سرحد پار افغانستان میں دریائے کابل پر شہتوت بند ایک مہیب خطرہ سے کم نہیں ہے۔

ہندوستان نے حال میں افغانستان کے صوبہ ہرات میں 290ملین ڈالر کی لاگت سے افغان ہند دوستی کا بند تعمیر کیا ہے جو پہلے سلمہ بند کہلاتا تھا اس بند کی وجہ سے ایران سخت پریشان ہے۔پچھلے دنوں اس بند کے بارے میں ایران کے صدر روحانی نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ایران کو ماحولیات کی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صدر روحانی نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی افغانستان میں کاجکی ، کرنال خان، اور افغان ہند دوستی بند کی تعمیرسے ایران کے خراسان، سیستان اور بلوچستان صوبوں پر اثر پڑے گا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا افغانستان سے پانی میں شراکت کا حق ہے لیکن ہندوستان کی طرف سے ہرات میں افغان ہند دوستی بند کی تعمیر سے ایران میں پانی کا بہاو بے حد کم ہوگیا ہے ۔ 

معلوم نہیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں ایران کے ساتھ کوئی رابطہ کیا ہے اور افغانستان میں ہندوستان کی طرف سے بندوں کی تعمیر پر مشترکہ تشویش ظاہر کرتے ہوئے کوئی اشتراک عمل تجویز کیا ہے یا ایران کی ہم نوائی پر امریکا کی ناراضگی کا خوف طاری ہے۔

♦ 

One Comment