یہ کالے کوٹ والا کون ہے

بیرسٹر حمید باشانی

تحریک انصاف نے انصاف کے بہت وعدے کیے۔ نعرے لگائے ۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے انصاف کا محکمہ ہی اپنی اتحادی جماعت کے حوالے کر دیا۔ یوں وہ اس باب میں عوام کے آگے جواب دہی سے بری الذمہ ہوگئی۔ مگر اگر تحریک انصاف حسب وعدہ عوام کوسستا اور معیاری انصاف دلانا چاہتی ہے، تو اسے سب سے پہلے ان لوگوں کی طرف توجہ دینی ہوگی، جو قانون و انصاف کے پیشے سے منسلک ہیں۔ جن کا اوڑنا بچھونا یہی ہے۔ یہ لوگ دن رات قانون و انصاف کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ قانون و انصاف کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں، حل تجویز کرتے ہیں۔ اور منصفوں کو فیصلے کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

یہ کالا کوٹ پہننے والا شخص، جس کو ہم وکیل کہتے ہیں، نظام انصاف کی بنیادی اور ناگزیر اینٹ ہے۔ یہاں اہم الفاظ بنیادی اور ناگزیر ہیں۔ آج دنیا کا ہر ملک خواہ اس میں جمہوریت ہو یا مطلق العنانی، وہاں انگریزی نظام انصاف نافذ ہو یا فرانسیسی نظام انصاف، اسلامی شریعہ کا قانون ہو یا سوشلسٹ نظام، یہ سب ایک ملزم کا وکیل کاحق تسلیم کرتے ہیں۔

گویا اس بات پر دنیا میں اجماع ہے کہ انصاف کے لیے وکیل کا ہونا ضروری ہے۔ بہت پرانا اور سادہ سا سوال ہے کہ وکیل کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟ اور وکیل انصاف کرنے میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ وکیل کا کردار اس کردار سے یکسر مختلف ہے، جو ہمارے ہاں عام طور پر پایا جاتا یا سمجھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر آج تک جتنے لوگوں سے میری بات ہوئی ہے ان کی بھاری اکثریت وکیل کے کردار کے بارے میں غلط خیالات اور معلومات رکھتی ہے۔ ان میں بسا اوقات یونیورسٹی کے پروفیسروں سے لیکر عام لوگ شامل ہیں۔

عام آدمی کے ذہن میں وکیل کا تصور ایک ایسے شخص کا ہے، جو ہوشیاری، چالاکی، ہیرا پھیری اور شور شرابے کے ذریعے جج اور دوسرے وکیل کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایک گنہگار شخص کو بے گناہ، اور بے گناہ شخص کومجرم ٹھہرا لیتا ہے۔ وکیل کے بارے میں یہ گمراہ کن تصور اتنا عام ہے کہ اس کی وضاحت کرنے کے لیے ایک کالم نا کافی ہے، مگر بہت ہی مختصر اور بنیادی بات یہ ہے کہ وکیل کے دو کام ہیں۔

پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنے موکل کو اس طرح قانونی تحفظ فراہم کرے کہ اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو۔ اگر اس کے موکل نے کوئی جرم نہیں کیا تو اسے قانونی تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ اسے ناکردہ گناہ کی سزا نہ ہو۔ اور اگر اس کے موکل نے جرم کیا ہوا ہے تو بھی اسے قانونی تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ اس نے یہ جرم کن حالات میں کیا، جرم کی اصل نوعیت کیا ہے، اور مجرم ثابت ہونے پر اسے جرم سے زیادہ سزا نہ دی جائے۔ 

وکیل کا دوسرا کام مقدمے کافیصلہ کرنے میں جج کی مدد کرنا ہے۔ گویا وکیل جج کے سامنے حالات واقعات اور متعلقہ قانون اس طرح وضاحت سے پیش کرتا ہے کہ جج کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس طرح ایک عدالت کے اندر جج اور وکیل دونوں اس نظام انصاف کا حصہ ہوتے ہیں۔ گویا وکیل بنیادی طور پرعدالت کا حصہ ہے یعنی عدالتی آفیسر ہوتا ہے، جس کا بنیادی کام انصاف کی فراہمی میں معاونت ہے، چالاکی، مکاری یا ذہانت سے انصاف کے راستے کی رکاوٹ بننانہیں ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

اس مغالطے کی وجہ سے ہمارے ہاں وکلا کا وہ احترام نہیں ہے، جو دنیا کے بیشترترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ اس معاملے میں آج بھی ہمارے ہاں عام لوگوں میں اکبر الہ آبادی کی دانش ہی غالب ہے کہ

پیدا ہوا وکیل تو کہا شیطان نے، لو آج میں بھی صاحب اولاد ہو گیا

مغرب و مشرق کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی وکالت کے پیشے کو ملک کے پہلے تین چارپسندیدہ پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سماجی رتبے اور مالی منعفت کے اعتبار سے ڈاکٹروں کے بعد وکالت کو ہی اچھا پیشہ تصور کیا جاتا ہے۔ 

مغرب کے جن ممالک میں اس پیشے کی اچھی شہرت اور عزت ہے۔ ان میں کینیڈا بھی شامل ہے۔ کینیڈامیں اس پیشے کی عزت و وقعت کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ کنیڈا میں لاء سکولوں میں داخلہ بہت ہی مشکل ہے۔ لاسکولوں میں سیٹیں اتنی محدود ہیں کہ عام طور پرٹاپ ٹن لوگ ہی لا سکولوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

کینیڈاا میں گزشتہ پچاس سالوں میں کوئی نیا لا ء سکول نہیں بنایا گیا۔ امتحانات میں اعلی نمبروں کے علاوہ لاء سکولوں میں داخلے کی ٹیسٹ بھی لازمی ہے، جس کو محض پاس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، بلکہ اس میں بھی اعلی نمبر اور میرٹ کی بنیاد پر اوپر آنے والوں کوچنا جاتا ہے، اور ٹیسٹ پاس کرنے والوں کی اکثریت داخلے سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس طرح لاء سکول میں یہاں کے بہترین دماغ ہی قدم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اس پیشے کی عزت و احترام کی دوسری وجہ یہاں کی لا سوسائٹی ہے۔ لا سوسائٹی وکلا کے نظم و ضبط کی ذمہ دار ہے۔ اس لاء سوسائٹی کو دنیا کی سخت ترین لاء سو سائٹی سمجھا جاتا ہے، جس میں وکلاء کے چال چلن اور برتاو کے باب میں رواداری یا درگزر صفرہے۔ خصوصا ایسے ممبران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جاتی ہے، جن کے کسی عمل سے اس پیشے کی شہرت اور نیک نامی خطرے میں پڑتی ہو۔ عوام کا بھروسہ اس پیشے سے اٹھتا ہو یا اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ 

ہم سب شب و روز دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کچھ وکلا کس قدر اپنے پیشے کی بے قدری کرتے ہیں۔ اس کی رسوائی اور بد نامی کا باعث بنتے ہیں۔ مگر اس پیشے کی بے وقعتی میں ایک بڑا حصہ حکومت کا بھی ہے۔ ہماری کچہریوں میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔ گرد آلود اور بد بو دار ماحول ہے۔ ٹاوٹ گھوم رہے ہیں۔ اس ماحول میں ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کر وکالت کرنے کی کوشش کرنے والا شخص اپنے پیشے کے لیے کیا عزت اور احترام پائے گا۔

حکومت کی نا اہلی یا لاپرواہی یا وسائل کی قلت اپنی جگہ ، مگر وکلاء کی انجمنیں بھی اگر چاہیں تو اپنے ذرائع اور وسائل جمع کر کہ اپنے دفتروں کے سامنے سے کوڑا کرکٹ تو ہٹا سکتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے سماج میں اب تک بھی اپنا بوجھ خود اٹھانے کا رحجان کم ہے۔ اپنے ہاتھوں سے کام کرنا توہین سمجھی جاتی ہے۔ اور صفائی جیسے کام کو ہاتھ لگانا اور بھی بڑا مسئلہ ہے۔ حالاں کہ ترقی یافتہ دنیا میں اکثر لوگ اپنے کام کی جگہ خود صاف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

ایک آدمی کے ناک کے نیچے گند اور کوڑا کرکٹ پڑا ہوا ہو اور وہ آرام سے بیٹھا حکومت یا میونیسپلٹی کا انتظار کر رہو ں تو یہ بد قسمتی کی بات ہے۔ یہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی تو چمکیلی اور شاندار عمارتیں ہیں۔ یہی ماحول نچلی عدالتوں کا ہونا چاہیے ۔ مگر نچلے درجے کی عدالتوں کا ماحول نا قابل یقین حد تک خراب ہے۔۔ عدالتوں میں دھکم پیل اور بھیڑ ہے۔ وکلا کے لیے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ اور بات کرنے کاماحول نہیں ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ وکالت کے پیشے میں بنیادی تبدیلی لائے بغیر پاکستان میں نظام انصاف میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ کام مشکل اور طویل مدتی ہے، مگر کیے بغیر چارہ نہیں۔ دنیا کے کامیاب ممالک نے یہی کیا ہے۔ آغاز لاء سکول میں داخلے میرٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ لاء سکول میں داخلے کامیعار میڈیکل سکول کے بعد سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ بار اور لائسنس کے امتحانات سی ایس ایس کے میعار پر ہوں۔ اور لاء سو سائٹی اپنے ممبران کے چال چلن اور موکل سے برتاوکے بارے میں وہی سخت رویہ اپنائے جو کینیڈا جیسے ملکوں میں ہے۔

اس طرح ملک کے بہترین دماغ وکالت میں پیشے میں آسکتے ہیں۔ یہ اقدامات کیے بغیرہمار ے گلے سڑے نظام انصاف میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ 

 

Comments are closed.