ایمل خٹک
پاکستان میں آپریشن ردالجمہوریت کے نتیجے میں قائم موجودہ حکومت کا گراف جس تیزی سے گر رہا ہے اس سے اسٹبلشمنٹ سخت پریشان ہے ۔ حکمرانوں کی حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کیلئے تیاری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اور تو اور وزیراعظم سرکاری آداب اور پروٹوکول سے نہ صرف نابلد بلکہ اپنی فرعونی طبعیت کی وجہ سے کسی سے بریفنگ لینے کی ضرورت تک بھی محسوس نہیں کرتے ۔
تیس دنوں میں سولہ یوٹرن غیرمعمولی بات نہیں ہے ۔ کچھ حکومتی فیصلوں سے حکومت کا داخلی اور بیرونی امیج کافی متاثر ہو چکا ہے ۔ خود حکمران جماعت کے کارکن بھی ان فیصلوں اور اقدامات کا دفاع کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ سابق حکمرانوں پر لعنت وملامت اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ عوام اب حکومت سے اپنے وعدوں اور منشور کے مطابق کارکردگی کے متقاضی ہیں جبکہ حکمران جماعت اپوزیشن موڈ سے حکمرانی کے موڈ میں نہیں آسکے۔ اسٹبلشمنٹ کے کچھ حلقوں میں بھی مایوسی اور پریشانی کے آثار نمایاں ہیں جبکہ عمران نواز میڈیا میں بھی فرسٹریشن نمایاں ہے ۔
بعض سٹرٹیجک معاملات میں بے بسی اور انتقامی کاروائیاں موجودہ حکومت کی بےاختیاری اور انتقام جوئی کی سیاست کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے ۔ آپریشن ردالجمہوریت کا پول جس طرح کھل چکا ہے خاص کر انتخابات میں ننگی مداخلت ، جلد بازی اور بھونڈے طریقے سے نوازشریف کی ڈس کوالیفیکیشن اور ان کو سزائیں ، ان کی سزا معطلی کا حالیہ جراتمندانہ فیصلہ اور میڈیا کو قابو میں کرنے کی کوششوں کے بعد اسٹبلشمنٹ کی انتقامی سیاست بے نقاب ھوچکی ہے ۔
قریبی دوستوں کو نوزانے سے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئی، اھم ریاستی شخصیات اور ان کے خاندان کے افراد کو پروٹوکول دینے کی خبروں سے پروٹوکول ختم کرنے کے دعوے غلط ثابت ہوئے ۔ البتہ اس بہانے سے کچھ سیاسی مخالفین بشمول میاں افتخار حسین سمیت جن کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں سے حفاظتی گارڈز واپس لیے گئے ۔ ضمنی انتخابات میں کئی راہنماوں کے قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹ دینے سے موروثی سیاست کو ختم کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گے ۔
عوامی سطح پر خاص کر اس کے اہم پاور بیس پنجاب میں اسٹبلشمنٹ کے بارے میں عوامی غم وغصہ بڑا ہے ۔ مخلوط حکومت بھی اندرونی اختلافات کاشکار ہے ۔ مرکز اور صوبوں خاص کر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی تشکیل اور بعض فیصلوں کی وجہ سے حکمران جماعت کے اندر بھی سخت خلفشار ہے ۔ موجودہ حکومت کی کامیابی اور ناکامی سے بعض ریاستی اداروں کی ساکھ اور وقار داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔
ملک میں نئی ٹرائیکا وجود میں آرہی ہے۔ اگر پرانی ٹرائیکا وزیراعظم ، آرمی چیف اور صدر مملکت پر مشتمل ہوا کرتی تھی تو نئی ٹرائیکا وزیراعظم ، آرمی چیف اور چیف جسٹس پر مشتمل ہے ۔ اگر پرانی ٹرائیکا داخلی اختلافات کا شکار تو نئی فی الحال ایک پیج پر نظر آرہی ہے ۔ خان کی تیرہ رکنی ٹیم بشمول فرسٹ ایمپائر ( جنرل ) اور سیکنڈ ایمپائر ( جج) کو جس عوامی غیض و غضب کا سامنا ہے اس کے پیش نظر جنگی جنون اور حب الوطنی کی ایک مصنوعی پیدا کی جارہی ہے۔
فرسٹ ایمپائر نے خان کی ٹیم کو بولڈ ہونے سے بچایا اور اب وہ اور سیکنڈ ایمپائر مل کر انھیں رن آؤٹ سے بچانے کی تگ ودو میں ہے ۔ مصنوعی جنگی فضا اور خالی خولی حب الوطنی کی فضا بھارتی حکمرانوں سمیت پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو بھی سودمند اور فائدہ مند نظر آرہا ہے ۔ اسلئے دونوں طرف کچھ دنوں تک شوروغوغا ر ہے گا۔
جنگی جنون کا مقصد ایک تو کٹھ پتلی کی حکومت تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینا اور ان کو دباوُ سے نکالنا ہے۔ دوسرا منی بجٹ اور اس کے عوام پر پڑنے والے اثرات سے عوام کی توجہ ھٹانا ہے ۔ تیسر ا اپنے سیاسی مخالفین خاص کر نوازشریف اور پشتون تحفظ موومنٹ وغیرہ کے خلاف ممکنہ انتقامی کاروائی سے عوام کی توجہ ہٹانا اور ان کو بالواسطہ اور بلاواسطہ کو غدار قرار دیکر تنقید کا نشانہ بنانا ہے ۔ چوتھا جنگی جنوں کی فضا پیدا کرکے اور حب الوطنی کے پردے میں شہری آزادیوں ، جمہوری اور بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی نئی کوششیں کرنا ہے ۔ میڈیا کے کچھ لوگوں پر مقدمات اس سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ پانچواں مخدوش اقتصادی صورتحال کے پیش نظر نام نہاد سادگی مہم اور عوام پر ٹیکسوں کی اضافی بوجھ ڈال کر فوجی بجٹ کو برقرار اور بڑھانے کیلئے جواز فرا ہم کرنا ہے ۔
جنگی جنون پیدا کرنے کیلئے ایجنسیاں اپنے سیاسی ، مذہبی ، سماجی اور صحافی مہروں یعنی شیخ رشید سے لیکر حافظ سعید تک کے ذریعے جنگ جوئی کی فضا پیدا کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے ۔ اس کیلئے پیغامات ، ریلیاں اور مظاہرے کرائے جائیں گے اور انڈین وزیراعظم نریندرا مودی سے زیادہ سیاسی مخالفین کو ہدف تنقید بنایا جائیگا ۔ ایجنسیاں اپنے مقامی ٹاوٹ اور مخبروں کے ذریعے مقامی سطح پر جنگجو یانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرئیگی ۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر پشتونوں کو غیرت دلائی جائی گی کہ وہ جذباتی بیانات دیں ۔ پشتونوں اور قبائلیوں کے گیٹ اپ میں کچھ گل خان اسلحہ سمیت ویڈیو پیغامات اور بیانات جاری کرئینگے اور ان میں سے چند گل خانوں کو تند و تیز بیانات اور دشمن کو دھمکیاں دینے کیلئے آگے لایا جاسکتا ہے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نہ پاک انڈیا جنگ ہوگی اور نہ کوئی علاقائی یا عالمی قوت ان کو جنگ کرنے دے گی۔ علاقے میں اور دنیا میں ایسی کوئی قوت نہیں جو پاک انڈیا جنگ کے حق میں ہو یا جنگ کے موقع پر وہ کھلم کھلا پاکستان کیلئے انڈیا کو ناراض کریں گے ۔ جنگ میں حمایت تو کجا سعودی عرب اور چین جیسے دوست ملک پاکستان پر انڈیا سے بہتر تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اور دونوں کے انڈیا سے بہتر تعلقات بھی ہیں ۔ چین اور انڈیا کی علاقائی رقابتیں اور سرحدی تنازعات ایک طرف چین علاقے میں امن اور سلامتی کا خواہاں ہے اور اپنے اقتصادی مفادات کی تحفظ کیلئے کسی صورت جنگ نہیں چاہے گا ۔
پاکستان اور سارا خطہ مزید بدامنی اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جنگی جنون ایک آخری حربہ رہ گیا ہے۔ مگر نتیجہ مزید تباہی اور بربادی کی شکل میں نکلے گا ۔ عوام کی بدحالی اور مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ حکمران تو اپنا جام اور مکھن کھاتے رئینگے مگر عوام کو حقیقی معنوں میں گھاس کھانے پر مجبور کیاجارہا ہے ۔ عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جنگ یا جنگی جنون نہیں بلکہ امن اور بھائی چارے کی ضرورت ہے ۔ علاقائی امن اور استحکام کی ضرورت ہے ۔
سنجیدہ حلقے پاک انڈیا میں جنگی جنون کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اور اسے اسٹبلشمنٹ کی ایک نا اھل اور کٹھ پتلی حکومت کو مصنوعی طریقے پر اقتدار کی کرسی پر براجمان رکھنے کی ایک چال اور عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا ایک اور حربہ سمجھتے ہیں۔ ریاستی رٹ کی کمزوری اور روایتی طریقوں کے ذریعے حالات کو قابو میں رکھنے میں ناکامی کے بعد اور ناعاقبت اندیش داخلی اور خارجہ پالیسوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیش نظر ریاستی ادارے اب اختلاف نظر کو غداری کا رنگ دے رہے ہیں۔
♦
One Comment