عوام کا بیانیہ کہاں ہے ؟

بیرسٹر حمید باشانی

لکھنے پڑھنے کے معاملے میں ہم لوگ کافی افلاس کا شکار ہیں۔ ہمارے ماہرین تعلیم سے لیکر عام آدمی تک اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم روبہ زوال ہے۔ پاکستان میں پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں لکھائی پڑھائی کا جو معیار تھا، وہ اب نہیں ہے۔ زبان بطور ذریعہ تعلیم، وسائل کی کمی اور نقل کا عام ہونااس کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے پچاس اور ساٹھ کی دھائی سے مسلسل روبہ زوال اس نظام کا اثر زندگی کے ہر شعبے میں پڑنا تھا، جو پڑا۔ ہمارے طلبا عالمی معیار کے کسی مقابلے میں کوئی شاندار کارکردگی نہیں دیکھا سکتے۔ ہمارے سائنسدان دنیا میں کوئی خاص نام نہیں پیدا کر سکے۔

یہی صورت حال اکیڈیمیا کی ہے۔ ہماری اکڈیمیا دنیا کی ان محدودے چند میں شامل ہے، جن پر نقل کرنے اور پورے پورے تھیسس چوری کرنے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ مگر اس زوال کا ایک نمایاں اظہار تحقیق، تخلیق ، ادب اور تاریخ میں ہوا۔ ہمارے ہاں اب عالمی معیار کا ادب تخلیق نہیں ہو رہا۔ اس وقت محدودے چند ادیب ہی ہوں گے جن کو کسی بڑے عالمی ادیب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے میدان میں اس صورت حال کے سب سے زیادہ اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی ایک مثال ہماری تاریخ کی کتب کی تدوین و تدریس ہے۔

تاریخ ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں بہت کم اورغیر میعاری کام ہوا ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کو جس انداز میں لکھا، پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، وہ دنیا کے آزاد اور کامیاب ممالک کے بر عکس ہے۔ آزاد اور ترقی یافتہ ممالک میں تاریخ کا کوئی ایک یا سرکاری طور پر منظور شدہ بیانہ نہیں پڑھایا جاتا۔ اس کے برعکس ان ممالک کے کمرہ جماعت میں ایک تاریخ دان اور طالبعلم کے درمیان کھڑی دیوار گرائی جاتی ہے۔ ایک سفارتی تاریخ دان باا ثر مدبرین کے نقطہ نظر سے تاریخی واقعے کو دیکھتا ہے، اور تاریخی پس منظر، محرکات اور اس کے سفارتی نتائج کے حوالے سے جائزہ لیتا ہے۔

ایک ثقافتی تاریخ نویس ایک خاص دور کی چیزوں، منظر اور آوازوں پر پڑاتہہ در تہہ پردہ اتار کر انسانی بے چینیوں اور جذبات کی کھوج لگاتاہے۔ ایک مارکسی تاریخ دان واقعات کو طبقاتی عینک سے دیکھتا ہے۔ ایک ہی واقعہ کی مختلف تاریخ دان مختلف تشریح کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ماضی کے واقعات کو بیان کرنے اور ان کی تشریح کرنے کا نام ہے۔ اگر ہم حقیقت میں تحقیق و تجزئیے کے ان اوزاروں کو سیکھنا اور ان کے استعمال پرعبور حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے مختف بیانیے پڑھیں اور پیش کریں۔ اور یہ دیکھیں کہ کس طرح مختلف تاریخ نویس ایک ہی واقعے سے مختلف نتایج اخذ کرتے ہیں۔ ایک تاریخ نویس کی تحریر میں موجود کمی دوسرے تاریخ نویس کو پڑھ کر ہی سامنے آسکتی ہے۔

تاریخ ماضی کو یاد رکھنے اور محفوط کرنے کی ایک کوشش ضرور ہے، مگر یہ محض یادیں نہیں ہیں۔ یادیں تاریخ کاایک بنیادی ذریعہ ہیں، مگر وہ اکیلی تاریخ نہیں ہیں۔ تاریخ بنیادی طور پر یادوں کامجموعہ ہے، جس کے تجزئیے کے بعد ایک با مقصد نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے، لیکن اس مجموعے کا انحصار ان یادوں پر ہے، جن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جب انتخاب کا وقت آتا ہے، تو ہم اپنے آپ کو اسی سانچے میں ڈھال دیتے ہیں، جو صدیوں پہلے اس خطے میں تاریخ نویسی کے لیے بنا دیا گیا تھا۔ اس سانچے میں رہتے ہوئے تاریخ صرف بادشاہ اور سپاہ سالار ہی بناتے ہیں۔ یا ان کے وزیر و مشیر ہی کسی تاریخ کے قابل ذکر کر دار ہوتے ہیں۔

اس سانچے میں ڈھلی ہوئی تاریخ میں عام آدمی کا کردار ہوتا ہی نہیں۔ عوام کا کوئی بیانیہ ہی نہیں پیش کیا جاتا۔ اس میں سپاہیوں، پیادوں، مزدوروں اور کسانوں کا زکر سرسری اور غیر اہم پیرائے میں ہی ہوتا ہے۔ مجھے ایک کتاب یاد آرہی ہے، جس کا زکر میں گزشتہ ہفتے ان ہی سطور میں کیا تھا۔ یہ کتاب ایک نسبتا گمنام انگریزپروفیسر ای پی تھامسن نے لکھی جسے بائیں بازوں کے ایک چھوٹے سے پبلشر نے چھاپا تھا۔ اس کتاب کے بارے میں پچاس سال بعد گارڈین نے لکھا کہ تب سے آج تک کوئی برطانوی تاریخ نویس اس کتاب کے برابر کی کوئی کتاب نہ سامنے لاسکا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انگریز محنت کش طبقے کے تجربات کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا، اور پیش کیا گیا۔

یہ کتاب انگریز مزدور طبقے کی تاریخ ہے، جس کو اب کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کو بیسویں صدی کی کامیاب ترین تاریخ کی کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں کتاب لکھنے کا مقصد غریب لوگوں کو بچانے کی ایک کوشش بتایا گیاہے۔ یہ کتاب سماجی تاریخ کی نئی لہر کا حصہ ہے۔ سیاست، سفارت اور حکومت کے عام دھارے سے باہر رہنے والوں کو تاریخی فریم میں رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ 

اس کتاب کو دنیا بھر میں پڑھا گیا۔ اس پر بے شمار تبصرے لکھے گئے۔ اس سے پہلے کے سماجی اور معاشی تاریخ دان کام کرنے والے لوگوں یعنی محنت کشوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے رہے۔ لیکن ان کی توجہ کا مر کز ہمیشہ وہ چیزیں رہی ہیں ، جوٹھوس اور قابل احساس ہیں۔ یاوہ لوگ رہے ہیں جو بہت خستہ حال ہیں۔ یا پھر انہوں نے محنت کش کے معاوضوں ، ان کے معیار زندگی، یونینز اور ہڑتالوں پر ہی لکھا ہے۔

مگر تھامسن نے ایک مختلف کوشش کی۔ اس نے مزدور انجمنوں اور محنت کش کے معاوضوں پر بھی لکھا لیکن بیشتر کتاب کو اس تجربے کی نذرکیا، جس کو وہ محنت کش کا تجربہ کہتا ہے۔ مقامی اور قومی ریکارڈ اور محفوظ شدہ دستاویزات سے اس نے صبر آزما اور جامع تجزئیے کے بعد اس وقت کے کارخانوں کے رسوم و راج بیان کیے۔ اس نے اس وقت کی ناکام سازشیں، دھمکی آمیز خطوط اور مقبو ل گیتوں پر لکھا۔ اس نے ارکائیو سے وہ موادلیا جس کو دوسرے تاریخ نویسوں نے ردی قرار دے دیا تھا، چنانچہ اس نے دوسرے تاریخ نویسوں کے سامنے سخت سوالات رکھے۔

اس طرح اس کتاب میں اس نے ان انسانی تجربات کو بیان کیا، جس پر ابھی تک تاریخ دانوں نے نہیں لکھا تھا۔ اس کتاب کے منظر عام پر آنے کا وقت بھی بہت مناسب تھا۔ ساٹھ کی دھائی میں یونیورسٹی کے شعبے میں بہت وسعت آئی تھی۔ نئی یونیورسٹیاں بن رہی تھیں۔ یہ نئی یونیورسٹیاں ایسے لیکچراروں اور طلباسے بھر رہی تھیں، جو روائتی طور پر تعلیم و تدریس کی ایسی مراعات نہیں رکھتے تھے، جو اب ان کو حاصل تھیں۔ چنانچہ بہت سوں کو تھامسن کی کتاب میں دکھائے گئے بے چارے، مغلوب اور گرے پڑے لوگوں سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ یہ ایک ایسا وقت بھی تھا جب مارکسی دانشور ابھی تک یقین رکھتے تھے کہ سرمایہ داری کا حقیقی متبادل موجود ہے، اور حقیقی مارکسزم کو ابھی تک آزمایا ہی نہیں گیا۔ 

تھامسن نے اپنی کتاب میں کئی ایسے سوالات کا جواب نہیں دیا، جو اس وقت زبان زد عام تھے۔ مگر سولات کا حتمی جواب دینے کے بجائے اس کا مقصد سماج میں ایک جگہ بناناتھا ، جس میں اساتذہ اور طلبا کی آئیندہ نسلیں پسماندہ اور بے بس لوگوں کی بات بھی کریں جنہوں نے تاریخ پر بظاہر بہت کم اثر مرتب کیا، ان کا زکر بہت کم آیا، مگر در حقیقت ان کا کردار بہت اہم ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ عمو ما بڑے اور طاقت ور لوگوں کے قصے کہانیوں اور یادوں کو سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہماری تاریخ صرف ان ہی قصے کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ عام لوگوں کے اہم اور بنیادی کردار کو یا تو تاریخ میں پیش ہی نہیں کیا جاتا یا پھر ان کو ایک غیر متحرک اور غیر اہم شے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تاریخ کا صرف ایک ہی اور عموما سرکاری طور پر منظور شدہ بیانیہ ہی پڑھایا جاتا ہے، جس سے تصویر کا صرف ایک ہی رخ سامنے آتا ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں علمی و فکری آزادی کے فقدان بھی ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی تاریخی واقعے کو علمی و تحقیقی انداز میں دیکھنے کے بجائے طے شدہ پالیسی اور حکومتی گائڈ لائن کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔

♦ 


Comments are closed.