کسی ایک مذہب یا فرقے کے پیروکاروں یا مخصوص سیاسی اور سماجی نظریات کے حامل گروہوں اور کمیونٹی سے وابستہ افراد پر مشتمل شہروں اور دیہاتوں کے قیام کا تصور نشاۃ ثانیہ سے یاد گار ہے۔ کچھ دانشور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ افلاطون کی ری پبلک دراصل ایک مثالی ریاست کے قیام کا ہی نظریہ تھا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کےیورپ میں مثالی دیہاتوں کے قیام کو بہت پذیرائی ملی تھی۔ مسیحی کلیسا نے ’گناہ سے پاک‘ سے پاک عبادت گذار مسیحیوں کے لئے مثالی دیہات بسانے کی طرف خصوصی توجہ دی تھی۔
انیسویں صدی کے فیبین بھی مثالی سوسائٹیز اور کمیونٹیز بنانے میں سرگرم رہتے تھے۔ ایسے بہت سے تجربے ہوئے بھی لیکن بالآخر انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔انیسویں صدی کے سماجی مصلحین ایسے دیہات اور شہر بسانے کے خواہاں تھے جہاں تمام افراد باہم برابر اور مساوی حقوق اور ذمہ داریوں رکھتے ہوں۔ ایسا سماج جس میں چوری چکاری نہ ہو اور باہم لین دین میں دھوکہ فریب کا عمل دخل نہ ہو۔ سب افراد ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں ۔ ایک ایسا یوٹوپیائی دیہات اور شہر جہاں ہر طرف امن و خوشحالی ہو اور اس کے باسی پرامن اور پر سکون زندگی گذار تے ہوں۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضہ کیا اور پنجاب میں آبپاشی کے لئے نہری نظام بنایا تو اس نے مختلف کینال کالونیوں میں مسیحی پادریوں کو زمینیں الاٹ کیں جہاں انھوں نے ماڈل دیہات بنائے۔ کلارک آباد، جیمس آباد، خوش پور، شانتی نگر وغیرہ اسی دور کی یاد گار ہیں۔ان دیہات میں پنجاب کے دوردراز کے علاقوں سے مسیحی آبادی کو لا کر بسایا گیا تھا ۔یہ دیہات اپنی ٹاون پلاننگ کے اعتبار سے انگلستان کے دیہاتوں کا نمونہ تھے۔ گاوں کا اپنا سکول تھا، اپنا چرچ تھا اور گاوں میں گھر ایک ترتیب میں بنائے گئے تھے گلیاں بہت کشادہ تھیں۔ ان مسیحی دیہاتوں کی اکثریت مسیحی آبادی مالک کسانوں پر مشتمل تھی۔
مثالی آبادیوں کا یہی تصور بعد ازاں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں نے بھی اپنا یا تھا۔ برصغیر کے بڑے شہروں میں پارسیوں کی علیحدہ رہائشی کالونیوں اسی دور کی یادگار ہیں۔
آج سے اسی نوے سال قبل امریکہ سے تعلیم یافتہ سردار گوربخش سنگھ نے بھی امرتسر کے قریب پریت نگر کے نام سے ایک ایسا ہی مثالی گاوں کی کوشش کی تھی ایک ایسا گاوں جو آرٹسٹوں، موسیقاروں، اداکاروں اور فنون لطیفہ سے جڑے افراد کا مثالی گاوں تھا۔ جب تک گوربخش سنگھ حیات رہے یہ گاوں پنجاب میں روشن خیالی اور ترقی پسند ی کی علامت بنا رہا ۔ لیکن ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا ۔
کچھ سال قبل مجھے پریت نگر جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ یہ گاوں اب روایتی گاوں بن چکا تھا ماضی میں اسے جن اعلی مقاصد کو پیش نظر رکھ بنایا گیا تھا وہ کہیں دور دور بھی نظر نہیں آتے تھے۔ گوربخش سنگھ کے اہل خانہ آج بھی اسی گاوں میں رہتے ہیں لیکن ان کے پاس ماضی کی یادوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد مسلمان مذہبی زعما نے بھی ایسے مثالی قصبے اور شہر بسانے کی کوششیں کی تھیں۔ ایسی پہلی کامیاب کوشش جماعت احمدیہ نے کی اور ربوہ کا شہر بسایا جو آج بھی اکثریتی آبادی احمدیوں پر مشتمل ہے وہاں احمدیوں کا مثالی معاشرہ موجود ہے وہاں جاکر پتہ چلتا ہے کہ احمدیوں کا طرز معاشرت اور سماجی و مذہبی اقدار کیا ہیں۔
طلو ع اسلام والے غلام احمد پرویز نے بھی جس جگہ آج کل جوہر ٹاون واقع وہاں زمین خرید کر اہل قرآن کی بستی بسانے کی کوشش کی تھی لیکن بوجوہ ان کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ عقائد کے نام پر پراپرٹی کے اس بزنس میں جماعت اسلامی نے علیحدہ ہی رنگ جمایا ۔ جب ستر کی دہائی میں ثنائی سٹوڈیو میں منصورہ قائم ہوا تھاتو اس کے ارد گرد کے علاقوں میں جماعت کے زعما نے زمینیں خرید کر رہائشی سکیمیں بنائیں اور جماعت اسلامی کے ہم خیال اور رفقا کو یہاں اپنے گھر بنانے کی ترغیب دی۔
آج بھی منصورہ کے ارد گرد علاقوں میں جماعت کے ہمدردوں کی آبادی خاصی زیادہ ہے اور جماعت یہاں سے یونین کونسل کا الیکشن جیت جاتی ہے۔ جماعت کے بیوروکریسی کے بڑے گھر منصورہ کے اندر موجود ہیں جو خود ایک بڑی کالونی ہے۔ کلر کہار کے قریب واقع مینارہ سے تعلق رکھنے والے میر اکرم اعوان مرحوم نے لاہور میں ایک بڑی ہاوسنگ سوسائٹی اویسہ سوسائٹی کے نام سے بنائی جس کا شمار لاہور کی مہنگی رہائشی سکیموں میں ہوتا ہے۔
تقریبا ایک دہائی قبل جماعت اسلامی نے قرطبہ سٹی کے نام سے موٹر وے پر چکری کے نزدیک ایک اسلامی سٹی کے قیام کو ڈول ڈالا تھا جماعت کے ہمدردوں اور خیرخواہوں بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو قرطبہ سٹی میں پلاٹس خریدنے کی ترغیب دی گئی تھی اور جماعت کے اخبارات اور رسائل میں اس شہر کی خصوصیات پر مبنی اشتہارات چھپا کرتے تھے ۔ جماعت اسلامی نے اپنا ایک اجتماع بھی اس مجوزہ قرطبہ سٹی میں کیا تھا۔ پھر یہ قرطبہ سٹی کہاں چلا گیا کسی کو کچھ خبر نہیں ہے۔
مثالی معاشروں اوردیہاتوں کے حوالے سے اردو اور ہندی کے نامور لکھاری اوپندر ناتھ اشک نے ایک ناولٹ لکھا تھا بڑی بڑی آنکھیں جس میں انھوں نے دکھایا تھا کہ ان مثالی معاشروں اور دیہاتوں کے باسی اتنے ہی لالچی،کمینے، خود غرض اور کینہ پرور ہوتے ہیں جتنے کہ ہمارے عام شہروں، دیہاتوں اور گلی محلوں میں رہنے والے لوگ۔ مثالی شہروں اور دیہاتوں کے قیام کا مقصد ہمارے اس عہد میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ مذہب کی آڑ میں پراپرٹی کا بزنس کیا جائے اور اپنے پروکاروں اور ہمدردوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے کسی شخص یا سیاسی جماعت کی قوت کو بڑھانے کا کام لیا جائے۔
♥