مؤذن نے تکبیر پڑھی اور لوگ جمعہ کی نماز کے لیے صف میں کھڑے ہوگئے۔عبدالسلام بھی کھڑا ہوگیا۔اس کے سر پر ٹوپی نہیں تھی۔بال بکھرے ہوئے تھے۔
امام نے سورہ فاتحہ شروع کی تو اس کے کان میں کجھلی ہوئی۔اس نے کان کھجایا۔کان کھجاتے ہی اسے یادآیا ،کئی دنوں سے وہ کان صاف کرنے کے بڈس خریدنابھول رہا ہے۔اس نے خود سے کہاآج وہ ضرور خریدے گا۔اسی دوران اس کی نظرمسجد کی دیوارپر لگی گھڑی پر گئی جس میں ایک بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے۔وقت کی یہ تفاوت اس پر گراں گزری۔
اس نے سوچا مسجد کی گھڑیاں اکثر پیچھے کیوں رہتی ہیں۔اس خیال پر وہ سنجیدگی سے غورکرنا چاہتا تھالیکن عین اسی وقت ایک موٹی سرخ چیونٹی نے اس کے انگوٹھے پر رینگنا شروع کیا۔اس نے ہلکے سے چارپانچ بارپیر جھٹکا تاکہ چیونٹی گرجائے،چیونٹی رینگتے ہوئے اس کی ایڑھی تک پہنچ گئی۔ابھی وہ اس آفت پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا کہ اس سے لگ کر جو نمازی کھڑا تھا اس نے آنکھیں ترچھی کرکے ایک نظراس کوگھورکردیکھا۔ان دونوں کی آنکھیں ملیں تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے عبدالسلام کو احساس دلایا کہ اس کا دھیان امام صاحب کی طرف ہونا چاہئے۔
تذبذب میں اس نے گردن جھکائی۔دوبارہ چیونٹی پر اس کی نظریں مرکوزہوئیں،جس نے اسے عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا۔بالآخر اس نے دھیرے سے اپنا ایک پیر اٹھاکردوسرے پیر سے رگڑا اور اس ابلیسی چیونٹی سے نجات پائی۔
سورہ فاتحہ ختم ہوئی اور آمین کا شوربلند ہوا۔اس نے بھی بآوازِ بلندآمین کہا۔جوں ہی اس کی زبان سے آمین ادا ہوئی،ایک دبیزمسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی۔۔۔دراصل اسے امینہ یادآگئی تھی۔طالب علمی کے زمانے میں وہ کالج کے عقبی حصے کی جھاڑیوں میں اسے یہ کہہ کر لے جایا کرتا تھا کہ پیار کی باتیں ایسی جگہ بیٹھ کر کرنا چاہئے جہاں فطرت کے علاوہ ان کی گفتگو کوئی اور نہ سن سکے۔امینہ گیارھویں جماعت میں اس کی کلاس میٹ تھی۔امینہ کی یاد کے ساتھ اس کا سراپا اس کی نگاہوں میں روشن ہوگیا جس میں گداز،کیف اور شرارے ہم آہنگ تھے۔
پھرنماز کب،کس طرح ختم ہوئی،اسے کچھ خبرنہ رہی۔بس امینہ کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کے لذت بھرے ذائقے اسے یاد آتے رہے۔
نماز ختم ہونے کے بعد امام صاحب نے دعا شروع کی جس میں باربار مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کی اللہ سے استدعاتھی۔جانے کیوں اس وقت اسے ہنسی آگئی جسے
وہ کسی طرح روک نہ سکا۔اس کے چہرے سے یوں بھی عیاں تھا کہ وہ دعامانگنے میں امام کے ساتھ شریک نہیں ہے۔
اس کی نظریں امام پر مرکوز تھیں۔اچانک اسے بچپن کے دنوں کے وہ امام صاحب یاد آگئے جو اکثر مکتب ختم ہونے کے بعد اس کے دوست نظیرعمرشیخ کو پیر دبوانے کے لئے مسجد میں روک لیتے تھے۔
امام صاحب بنگالی تھے اور عموماًلنگی پہنے رہتے تھے۔نظیر عمر شیخ پیردباتے دباتے امام صاحب کی چھڑی کے ڈر سے ان کی لنگی میں چھپنے لگا۔
پھر کئی برسوں تک امام صاحب کے پان ،جس میں ’’ایک سوبیس‘‘تمباکوکی تیز بو شامل ہوتی تھی،نظیر کی چھاتی سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی رہی۔مکتب میں پڑھنے والے کچھ دوستوں نے عبدالسلام کو یہ بھی بتایاتھا کہ نظیرعمرشیخ کے بدن سے امام صاحب کے سرمیں لگائے جانے والے زیتون کے تیل کی مہک بھی آتی ہے ۔ایک دوست نے رازدارانہ انداز میں اس کو بتایاتھا کہ ایک دن اس نے نظیر کے کان میں کچھ کہنا چاہاتو اس کے کان سے عطرجنت الفردوس کی خوشبو آرہی تھی۔یہ وہی عطر تھا جس کا پھاہاامام صاحب اپنے بائیں کان میں لگائے رکھتے تھے۔امام صاحب نے بچوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ عطر کا استعمال کرنا افضل ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ نظیر یسرنا القرآن سے آگے نہیں پڑھ سکا۔
ایک دن اس کے جی میں کیا آیا کہ اپنے کپڑے ایک تھیلی میں ٹھونس کر وہ گھر سے نکلا اور بمبئی نمبرآٹھ کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔۔۔چندبرسوں بعد نظیر کے یکایک غائب ہونے کا عقدہ اس پر کھل گیاتھا۔
یاد کے اس ٹکڑے کے ساتھ ہی عبدالسلام کے دعاکے لئے اٹھے ہاتھ اس کے چہرے پر گرگئے۔ایک افسردگی اس کی روح میں کروٹ لینے لگی۔وہ اٹھا اور احاطۂ مسجد سے باہر نکل گیا۔
♣
بھارتی ناول نگاررحمٰن عباس کے ایوارڈ یافتہ ناول’’خداکے ساتھ آنکھ مچولی ‘‘ سے اقتباس ’’عطرجنت الفردوس‘‘ کے عنوان سے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔رحمٰن عباس کے خلاف ان کے پہلے ناول’’نخلستان کی تلاش‘‘ کی تخلیق کے بعد ان پر فحاشی پھیلانے کا مقدمہ چلاتھا اور انہیں بطورلیکچرر اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑگئے،لیکن تقریباً دس برس بعد بالآخروہ یہ مقدمہ جیت گئے۔آپ کو دومرتبہ مہاراشٹراکا اعلیٰ ترین ادبی سہِتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا جسے آپ نے سنہ 2015 میں ایک مسلمان کوگائے کا بچھڑاذبح کرنے کے شک میں لاٹھیوں اور اینٹوں سے ماردیئے جانے کے ایک واقعہ کے بعد احتجاجاً واپس کردیا۔کئی ہندو شاعروں اور ادیبوں نے بھی اس انسانیت سوز واقعہ کے بعد اپنے ایوارڈ حکومت کوواپس کر دئے تھے۔(طارق احمدمرزا)۔