آصف جاوید
مذہب کا تعلّق انسانی عقیدت سے ہوتا ہے۔ مذہبی عبادات اور مذہبی رسوم و رواج کی پاسداری کے بعد مذہبی عقیدت کا اظہار مقاماتِ مقدّسہ کی زیارات سے بھی کیا جاتا ہے۔ مذہبی مقامات کی زیارات اور ٹورازم اب باقاعدہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ سعودی عرب ہر سال حج اور عمرے کی آمدنی سے تقریبا” 23 ارب ڈالر کماتا ہے۔ تیل اور گیس کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بعد سعودی عرب کی کمائی کا سب سے مستقل اور قابلِ بھروسہ ذریعہ مقاماتِ مقدّس کی زیارت اور حج و عمرے کے لئے آنے والے زائرین سے حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔
سعودی عرب نے مقاماتِ مقدّسہ کی زیارات اور ٹورازم کو باقاعدہ صنعت کے طور پر فروغ دیا ہے۔ کعبۃاللہّ (حرم شریف) کے چاروں اطراف جدید سہولتوں سے آراستہ فائیو اسٹارز ہوٹلز تعمیر کئے ہیں، جن کے دروازے صحنِ حرم میں کھلتے ہیں۔ مکّہ سے مدینہ کے درمیان ہائی ویز میں مسلسل توسیع جاری ہے۔ مدینہ شریف کے اطراف کو مسلسل جدید طرز پر آراستہ کیا جارہا ہے، نئے ہوٹلز کھولے جارہے ہیں۔ حجاج اکرام کو لانے لے جانے کیلئے جہازوں کے فلیٹ میں بڑے اور نئے جہاز شامل کئے جارہے ہیں۔ مکّہ اور مدینہ شہر کے انفراسٹرکچر کو مسلسل توسیع دی جارہی ہے۔ حج اور عمرے کے پیکیجز میں مکّہ اور مدینہ کی زیارات کے علاوہ دیگر مقاماتِ مقدّسہ اور فائیو اسٹارز ہوٹلوں کے آرام دہِ سوئٹس کا تذکرہ خاص طور پر کیا جاتاہے۔
اہلِ تشیّع کے لئےنجف و کربلا کی زیارت کے علاوہ ایران، عراق اور شام میں موجود مقاماتِ مقدّسہ کی زیارات کے پیکیجز سارا سال چلتے رہتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے لئے بھی مقاماتِ مقدّسہ کی زیارات اور ٹورازم کے امتزاج سے پیسے کمانے کے وسیع تر امکانات ہیں۔ سکھ دھرم کے ماننے والےانڈیا کے علاوہ دنیا کے ہر خطے میں مقیم ہیں، سکھ دھرم کےماننے والے بہت زیادہ دھارمک اور زندہ دل لوگ ہیں۔ سکھ برادری میلےٹھیلے، گھومنے پھرنے ، کھانے پینے کے شوقین لوگ ہیں۔ سکھوں کی اپنے دھرم سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ سکھ مغربی ممالک میں بھی اپنے پانچ علامتی نشانات کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ سکھ دھرم کے پانچ امتیازی نشان جنہیں ‘ککا‘ کہا جاتا ہے، کیس، کنگھا، کچھّا ، کڑا، کرپان ہیں ۔
کوئی بھی دھارمک سکھ ان پانچ علامتی نشانات کے بغیر زندگی گزارنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ سکھوں کی دھارمک زندگی میں ان پانچ نشانوں کے علاوہ جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ ہے گوردوارہ ننکانہ صاحب ، جو پاکستان کے شہر لاہور کے نزدیک میں واقع ہے۔ سکھ دھرم کے بانی بابا گورونانک جی وسطی پنجاب کے ضلع ننکانہ میں سنہء 1469 میں پیدا ہوئے تھے ۔ پاکستان میں ایسے مقامات کثرت سے موجود ہیں جن کا تعلق بابا جی کے بچپن اور جوانی کے ایام سے ہے۔
اس کے علاوہ سکھ دھرم کے تمام مشہور گوردوارے اور دیگر مقدّس مقامات بھی پاکستان میں ہی ہیں۔ سکھوں کے گوردوارہ ننکانہ صاحب سے وابستگی کا یہ عالم ہے کہ اگر آج انڈیا ۔پاکستان سرحد کھول دی جائےتو لاکھوں کی تعداد میں سکھ یاتری لاہور میں داخل ہوجائیں۔ ہر سال بیساکھی اور بابا گورونانک کے جنم دن پر ہزار وں کی تعداد میں سکھ یاتری بابا جی کی جنم استھامی کی یاترہ کے لئے آتے ہیں۔ حالانکہ ویزہ کے لیے لاکھوں یاتریوں نے درخواست دی ہوئی ہوتی ہے، مگر جگہ کی کمی، محدود انتظامات، اور سیکیورٹی ایشوز کی بناء پر صرف چند ہزار یاتریوں کو ہی ویزہ ملتا ہے۔ اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یاتری ، یاترہ سے محروم رِہ جاتے ہیں۔
سکھ دھرم کے ماننے والوں کا دو تہائی حصہ بھارت میں رہتا ہے، جب کہ ایک تہائی حصّہ دنیا کے دیگر ممالک میں آباد ہے۔ سکھوں کے پاکستان کے ساتھ مضبوط ثقافتی رشتے ہیں ۔ اس دو تہائی سکھ برادری کا صرف 20 فیصد ثقافتی ورثہ بھارت میں ہے، جب کہ 80 فیصد ثقافتی ورثہ پاکستان کے مختلف شہروں میں بکھرا ہوا ہے، سکھوں کے مقاماتِ مقدّسہ صرف ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب تک محدود نہیں۔ پورے پنجاب ، پختونخواہ، کشمیر میں موجود ہیں۔
پاکستان، ہر سال سکھ ورثے کے ذریعے دنیا بھر سے لاکھوں خوشحال یاتریوں کو راغب کر سکتا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سکھ یاتری ، بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک سے سکھ دھرم کے بانی بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں، مگر انڈیا اور پاکستان کے تعلّقات میں سرد مہری، سیکیورٹی وجوہات، جگہ اور انتظامات میں کمی کی وجہ سے پاکستان ہر سال کئی بلین ڈالرز کی آمدنی سے محروم رہِ جاتا ہے۔
اگر سکھوں کو پاکستان میں آزادانہ آنے جانے کی اجازت دے دی جائے تو بسنت اور بیساکھی کے میلوں ، پتنگ بازی، کبڈّی ، کّشتی کے مقابلوں، دیسی کھابوں کی مہک کے لئے سکھ برادری کچّے دھاگے سے بندھی ہوئی آئے گی، مشترکہ ثقافت سے لطف انداز ہوگی، دھرم استھانوں کی یاترا کرے گی، اور پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرے گی۔ پاکستان کے پاس مذہب، سیاحت اور ثقافت کے امتزاج سےملٹی بلین ڈالر کی اکانومی کو فروغ دینے کے سنہری مواقع موجود ہیں۔ مگر جب تک ہماری توپوں کے دہانوں سے گولےاگلتے رہیں گے ہم اپنی ثقافت اور تجارت کا خون کرتے رہیں گے۔
♦