لیاقت علی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوشل میڈیا پر شدید تنقید، تضحیک اور الزام تراشی کی زد میں ہیں۔ ان کے ناقدین میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک ان کے ہمدرد اور حمایتی جو یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو محروم اقتدار کرنے اوربعد ازاں جیل پہنچانے کے پورے عمل کے پس پشت چیف جسٹس اورججوں پرمشتمل ان کی ٹیم کا ہاتھ ہے۔
یہ حضرات اپنے غصے کا اظہارسوشل میڈیا پر چیف جسٹس کوگالی گلوچ کی صورت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس پر تنقید کرنے والا دوسرا فریق وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ چیف جسٹس اپنی ڈومین میں رہنے کی بجائے ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جوان کےدائرہ کارمیں نہیں ہیں۔
ثانی الذکرکےنزدیک چیف جسٹس کی ذمہ داری ہےکہ وہ عدالتی نظام کی اصلاح کریں اوراسےلوگوں کے لئے قابل رسائی بنائیں لیکن وہ ایسا کرنے کی بجائے ایسےکام رہے ہیں جوان کے کرنے کے نہیں ہیں۔ڈیم بنانا،اس کےلئے مہم چلانا اور چندہ اکٹھا کرنا ان کا کام ہر گزنہیں ہے۔ یہ ایک تکنیکی پراجیکٹ ہےجس میں ایک سے زائد انجیئرنگ کے شعبے کی پیشہ ورانہ مہارت کو عمل دخل ہے۔ اس کے بارے میں کسی جج کی معلومات اورعلم اتنا ہی ہوسکتا ہے جتنا کسی ہڈیوں کے ڈاکٹر کا قانون کےبارے۔
عدالتوں میں الٹے سیدھے ریمارکس دینے کی روایت پہلے پہل مولوی مشاق حسین چیف جسٹس لاہور کورٹ نے شروع کی تھی اور یہ ان دنوں کی بات ہےجب وہ بھٹو کا مقدمہ سن رہے تھے۔ وہ اکثرعدالت میں بھٹو کی تضحیک کرتے اوران پرجملے کستے تھے اوران کے یہ ریمارکس اورجملے اگلےدن کے اخبارت میں جھلکیوں کے عنوان سے پوری آب و تاب شایع کیے جاتے تھے۔
مولوی مشاق حسین سے شروع ہونے والی یہ روایت دن بدن مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئی اوراب تویہ روایت ایک تن آور درخت بن چکی ہے۔جسٹس خلیل الرحمان رمدے بھری عدالت میں سرکاری افسروں،وکلا اور پولیس اہلکاروں کی بے عزتی کرکے خوش ہوا کرتے تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ عدالت میں سرکاری افسروں کو ہتھکڑی لگوا کرحظ اٹھایا کرتے تھے۔انھوں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کوتوہین عدالت کےایک کیس میں اپنی عدالت میں طلب کیا تھا ۔ یہ تو نواز شریف کی خوش قسمتی تھی کہ وہ جسٹس رفیق تارڑ کے ذریعے ججوں میں تفریق پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور کوئٹہ بنچ نے جسٹس سعیدالزمان صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے انھیں نکال باہر کیا تھا۔ اس کارکردگی کی بنا پر جسٹس تارڑ کو صدارت اور جسٹس صدیقی کو گورنرشپ سندھ ملی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری عدالتی کے کام کرنے کی بجائے سیاسی معاملات میں ٹانگ اڑانےبہت زیادہ دلچسپی لیتے تھےاور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس فن میں یکتا تھے۔ افتخار محمد چوہدری سرکاری افسروں اور سیاسی رہنماوں کو اپنی عدالت میں بلا کر بے عزت کرنا اپنا فرض سمجھتےتھے۔جسٹس چوہدری نے اپنی عدالت میں اخباری نویسوں کے لئے ایک علیحدہ ٹیبل لگوائی ہوئی تھی اورجیو نیوز کے عبدالقیوم صدیقی کو ان کی عدالت میں وی آئی پی درجہ حاصل تھا۔جسٹس چوہدری نے وکلااورمیڈیا کو اپنا حمایتی بنایا ہوا تھا۔ ان کے عہد میں وکلا کو ست خون معاف تھے۔
جسٹس ثاقب نثار جسٹس افتخار چودھری کی تراشی ہوئی راہ پر ثابت قدمی سے گامزن ہیں۔ وہ بھی میڈیا اور وکلا کے سہارے سیاسی قیادت سے ٹکرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ابھی تک وکلا کی کسی انجمن نے چیف صاحب کے کسی اقدام پر کسی میٹنگ میں اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ سبھی وکلا انجمنیں ان کی حمایت میں یکسو ہیں اور یہی وہ طاقت ہے جس کو وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تیار رہتےہیں۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو اپنی شہرت کی بہت زیادہ فکر ہے کیونکہ وہ احساس جرم کا شکار ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کی عدلیہ میں تقرری میں کسی نہ کسی صاحب اقتدار فردیا گروپ کا عمل دخل ہے وہ میرٹ پر بالکل جج نہیں بنے۔لہذا ضروری ہے کہ وہ عوام پر یہ ثابت کر یں کہ وہ بہت زیادہ اصولو ں کے پابند اور صاحب کردار ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ کسی بھی جج صاحب کی پروفیشنل ہسٹری دیکھی جائے تو سب کچا چٹھا کھل جاتا ہے۔
جب تک اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کا عمل شفاف نہیں ہوتا ایسے مہم جو جج پیدا ہوتے رہیں گے۔
♦