حبیب شیخ
سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے لوگوں پر اور سچ بولنے والوں پر زمانہ قدیم سے ظلم ہوتا رہا ہے ۔ ایتھنز میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ۔ پیرس میں پروفیسر سیگل کو ابن الرشد کی کتاب کا پرچار کرنے پر پھانسی دے دی گئی ۔ کربلا میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو نیزوں اور تلواروں سے شہید کر دیا گیا ۔ منصور الحاج کو دریائے دجلہ کے کنارے پھانسی دی گئی ۔
اس طرح کی ہزاروں مثالیں تاریخ میں موجود ہیں ۔ لیکن لاکھوں گمنام اور بھی ہیں جنہیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر انتہائی اذیت ناک سزائیں دی گئیں ۔
اس ضمن میں ان صحافیوں اور ادیبوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو طاقت کے سر چشموں کے لئے طوائف نہیں بنتے۔ وہ ان طاقت کے سر چشموں پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور عوام کو ان کی غلط کاریوں اور زیادتیوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ان لکھنے والوں کو ان کے روز گار سے محروم کیا جاتا ہے ، اغوا کر لیا جا تا ہے ، جیلوں میں رکھا جاتا ہے، اذیت دی جاتی ہے اور کئی ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔
تاریخ میں کئی مثالیں ہیں کہ ان صحافیوں اور ادیبوں کی انگلیاں کاٹ دی جاتی ہیں کیونکہ یہی انگلیاں استعمال کر کے وہ قابل اعتراض مواد لکھتے ہیں ۔ حال ہی میں اس قدیم روایت کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے ۔
ترکی سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق صحافی جمال خشوگی کو قتل کرنے سے پہلے اس کی انگلیاں کاٹی گئی تھیں ۔ یہ کٹی ہوئی انگلیاں کسی سمندر کی تہہ میں یا ریگستان کی ریت کے نیچے چھپائی جا چکی ہیں۔ لیکن تاریکی کے بادشاہوں کو یہ پتا نہیں تھا کہ لاکھوں اور انگلیاں ان کی شبِ ظلمت کے خلاف اٹھ جائیں گی۔
♦
One Comment