ایمل خٹک
پاکستان میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامائزیشن کے نام سے نئے متعارف کرائے گئے یا اس دور کی ترمیم شدہ قوانین بشمول توہین رسالت کا قانون کافی عرصے سے سماجی ، سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے ۔ اور انسانی حقوق اور قانونی حوالوں سےاندرون اور بیرون ملک اس پر کافی لے دے ہورہی ہے ۔قوانین پر بحث عموما دو پہلووں سے ہوسکتی ہے ایک اس کے قانونی پہلو سے یعنی ان قوانین کے بناتے وقت کیا طریقہ کار اختیار کیاگیا ؟اور کیا تمام اہم شراکت داروں کی آراء لی گئی یا ان سے مشاورت کی گئی یا نہیں ؟ اور یہ قوانین کس حد تک انصاف کے مروجہ معیارات اور تقاضوں پر پورا اترتے ہیں ؟
دوسرا ان قوانین کے نتیجے میں پیداشدہ ماحول یعنی ان قوانین کے معاشرے پر پڑنے والے سماجی اور نفسیاتی اثرات کیاہیں؟ کیا ان قوانین کے آنے سے مذہبی اور سماجی امتیاز کم ہوا ہے یا بڑھ گیا ہے ؟ اور کیا ان قوانین کے آنے سے معاشرے کے مظلوم طبقات مثلا خواتین اور اقلیتوں میں تحفظ کا احساس بڑا ہے یا عدم تحفظ کا اس طرح ان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے یا کمی؟
اسلامائزیشن کے تحت قوانین کی افادیت اور ان کو مروجہ قانونی اور انسانی حقوق کے معیارات پر پرکھنے اور ان پر بحث سے پہلے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ وہ سوالات یہ ہیں کہ کیا قوانین کسی بھی مذہب کا ایک جُز ہوتے ہے یا کُل مطلب صرف سزائیں شریعت ہیں ؟ یا دوسرے معنوں میں کیا شریعت صرف سزاؤں کا نام ہے یا مذہب کا کوئی فلاحی نظام بھی ہے ؟
کیا اسلامی فلاحی نظام کی غیر موجودگی میں اسلامی قوانین یا سزائیں فائدہ مند ہوتی ہیں یا نہیں ؟ کیا شرعی نظام کی دیگر اجزا کی غیر موجودگی میں صرف قوانین یا سزاؤں کے نفاذ سے سماجی انصاف ممکن ہوسکتا ہے کہ نہیں ؟ مذہب میں حقوق العباد کی اہمیت کیا ہے اور ان پر زور دینے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں مذہبی تنگ نظری ، انتہاپسند اور انتہائی متشدد رحجانات کی بہتات ہے اور میانہ روی ، صبر اور برداشت اور رواداری ناپید ہے میں سچ اور حق کہنے کی گنجائش ہے کہ نہیں ؟
پہلے حدود آرڈیننس میں موجود سقم کی وجہ سے کئی خواتین کے ساتھ بے انصافی ہورہی تھی اور اب توہین رسالت کے قانون کے تحت بہت سے ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے کئی بیگناہ افراد کو یا تو قتل کیاگیا ہے اور یا جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور یا ان کے مقدمات چل رئے ہیں ۔ مشال خان کیس کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں ان پر لگائے گئے توہین رسالت کے الزامات کو بے بنیاد اور ان کے قتل کو باقاعدہ ایک منصوبہ بند قتل قرار دیدیا ہے۔
کسی بھی قانون کی افادیت اور اطلاق کو زیر بحث لانے کا مطلب ہرگز اس کی مخالفت نہیں ہوتا بلکہ مقصد اس میں اصلاح اور بیگناہ انسانوں کے قتل یا ان کے ساتھ بے انصافی کو روکنا ہوتا ہے ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان میں انتہاپسند مذہبی سوچ کی وجہ سے مذہبی معاملات میں عقل سے کم بلکہ جذبات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ مذہبی جذباتیت اور شدت پسندانہ سوچ ایک طرف مگر قانون توہین رسالت سمیت قوانین کے نقائص اور غلط استعمال پر بات کرنا توہین کے زمر ے میں نہیں آتا ۔ یاد رہے کہ کسی بھی مذہبی قانون میں ترمیم کوئی نئی بات نہیں ہوگی ۔ اس سے پہلے حدود آرڈیننس کا قبلہ درست کرنے کے بعد یعنی ان میں ضروری ترامیم کے بعد پاکستان کی مذہبی تشخص پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ توہین رسالت کے قانون پر بحث کا مطلب توہین کا ارتکاب نہیں ہے ۔ مذہبی تنگ نظری اور سطحی سوچ کی وجہ سے حالات کافی گھمبیر ہوچکے ہیں۔ کلمہ حق کہنا جہاد ہے مگر تنگ نظری اور مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے بہت سے عالم اور فاضل بھی حق بات کہنے اور قانون کا سہارا لیکر ذاتی حسابات بیباک کرنے کے عمل کی مخالفت کرنے سے کتراتے ہیں۔ مولوی حضرات تو سیرت نبوی سے اور خلفائے راشدین کے ادوار سے انصاف اور انصاف پسندی کے قصے ہر روز بیان کرتے ہیں مگر خود جب بات مظلوم عوام کے حقوق اور انصاف کی آتی ہے تو اصول انصاف سے روگردانی برتتے ہیں ۔
جہاں تک اسلامی قوانین کے ماخذ کا تعلق ہے تو اس میں اجماع اور اجتہاد دو ایسے بنیادی ماخذ ہیں جو بالترتیب ا ہم مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں نئے پیداشدہ عصری مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر ہمارے ہاں مذ ہب کے نام پر بننے والے قوانین کیلئے اجماع اور اجتہاد کے اصول کو کتنا اور کس حد تک استعمال کیا گیا یا کیا جاتا ہے اس پر کوئی مذہبی عالم ہی بہتر روشنی ڈال سکتا ہے ۔
قانون اور مذہب یا مقدس مذہبی شخصیات کی عزت اور احترام اور قانون دو مختلف چیزیں ہیں۔ کوئی بھی مذہبی لاحقہ یا سابقہ رکھنے والہ قانون مذہب نہیں ہوتا اور نہ غلطیوں سے پُر قانون کی مخالفت مذہب کی مخالفت ہوتی ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں مقدس مذہبی شخصیت کی شان میں گستاخی یا بے توقیری کی نہ تو کسی کو اجازت ہوتی ہے اور نہ پسند کیا جاتا ہے ۔ اسلامی معاشرے میں مقدس مذہبی شخصیات کا احترام سب کو کرنا چاہئیے۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کا احترام چاہتے ہیں تو دوسروں کی قابل احترام شخصیات کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا ۔ مگر دیگر مذاہب یا ان کی مقدس شخصیات کا مذاق اڑانا یا ان کی بے توقیری بھی انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے ۔ بدکلامی کا جواب اکثر بدکلامی کی صورت میں ملتا ہے ۔ دوسروں کی رائے یا شخصیات کا احترام کرنے کاہرگز مطلب ان کی عقائد یا نظریات سے متفق ہونا یا پیروی نہیں ہوتا۔
اس طرح صحیفے اور قانون میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ صحیفے عموما آسمانی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ہمارے عقیدے کے مطابق صحیفوں کا آسمانی پیغام پر مبنی ہونے کی وجہ سے ان کا پیغام ابدی ہوتا ہے جبکہ قوانین انسانی ہونے کی وجہ سے وقتی اور غلطیوں سے پُر ہو سکتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ غلطیوں سے بھرپور توہین رسالت کا قانون ایک انسانی قانون ہے یا آسمانی کہ جس کو بعض حلقے دانستہ یا غیردانستہ صحیفوں جیسا تقدس دے رہے ہیں ۔ اور اسے مزید بہتر بنانے کیلئے ضروری ترامیم کے مطالبات کی مخالفت کر رہے ہیں۔
مذہبی شخصیات کے نام پر عام لوگوں خاص کر مظلوم اقلیتوں کو بلیک میل یا ان پر الزام لگا کر انہیں بیدردی سے قتل کرنا کسی طور جا ئز نہیں ۔ توہین کے الزام میں مشال خان جیسے کئی بیگناہ افراد کا بہیمانہ قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1990 سے لیکر جنوری 2018 تک توہین کے الزامات میں تقریباً 75 افراد قتل ھوچکے ہیں ۔ اور چالیس کے قریب افراد جیلوں میں سزائے موت یا یا عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ توہین رسالت کے پچھتر فیصدی کیسز پنجاب میں رجسڑڈ ہوئے ہیں ۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی اکیاسی فیصدی عیسائی آبادی پنجاب میں جبکہ ترانوے فیصدی ہندو، سندھ میں رہتے ہیں۔
۔(جاری ہے )۔
Pingback: مذہبی قوانین کی افادیت کا مسئلہ۔آخری قسط – Niazamana