منیر سامی
شاید آپ کے علم میں ہو کہ گزشتہ تقریباً تین ہفتوں سے ایک سنسنی خیز اور درد انگیز معاملہ اقوامِ عالم میں سرِ فہرست ہے۔ وہ یہ کہ ایک سعودی نژاد صحافی اور ممتاز شخصیت ’جمال خاشقجی‘ کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں پر اسرر طور پر قتل کردیا گیا۔ ان کا تعلق سعودی عرب کے ایک اہم خاندان سے ہے ۔ وہ اب سے پہلے سعودی شاہی حکومت کے مشیروں میں بھی شامل تھے اور وہاں کے اہم اخباروں اور میڈیا اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے تھے۔ وہ اہم شہزادے ترکی الفیصل کے میڈیا مشیر بھی رہے تھے۔
گزشتہ چند سالوں میں سعودی عرب کے موجودہ سخت گیر تینتیس سالہ ولی عہد شہزادہ محمدؔ بن سلمان کے عروج اور بڑھتی ہوئی طاقت کے بعد ان سے دور ہو گئے، اور انہیں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ کے اہم اخبار ’واشنگٹن پوسٹ ‘ ادارتی کالم لکھتے تھے۔ اور ان کے ذریعہ سعودی عرب کے بعض معاملات پر تنقید بھی کرتے تھے، گو وہ ولی عہد کی بعض اصلاحات کے حمایتی تو تھے لیکن ان کے طریقہ کار سے اختلاف رکھتے تھے۔
ترکی سے آنے والی خبروں کے بعد جن میں بعض اب تک پوری طرح مصدقہ نہیں ہیں، جمال خاشقجیؔ اپنے ایک ذاتی کام کے لیے مورخہ دو اکتوبر کو، ترکی کے سعودی قونصل خانے میں گئے۔ اس سے پہلے بھی وہ اسے سلسلے میں وہاں گئے تھے اور انہیں ایک ہفتہ کے بعد دوبار بلایا گیا تھا۔ انہیں ان کے کئی دوستوں نے وہاں جانے سے منع کیا تھا ۔کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں سعودی عرب کے بارے میں انحرافانہ رائے رکھنے والوں کو مختلف ممالک سے اغوا کرکے سعودی عرب میں گمشدہ کردیا گیا تھا۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہ ترکی کے صدر اردوگان کے دوست بھی سمجھے جاتے تھے۔ قونصل جاتے وقت ان کی ترک نژاد منگیتر خدیجہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔وہ باہر ہی رہیں ، اور خاشقجی نے اپنے دو موبائل فون ان کے پاس چھوڑ دیے ، اور ان سے کہا کہ کہ اگر وہ چند گھنٹے میں باہر نہ آئیں تو خدیجہ ترکی کے صدر کے مشیر کو اطلاع دے دیں۔
جب وہ کئی گھنٹے تک باہر نہیں آئے تو خدیجہ نے ترکی کے صدر تک خبر پہنچائی۔ یوں فوراً ہی ترکی کے اہم ترین جاسوسی ادارے حرکت میں آئے اور چند ہی گھنٹے میں یہ خبریں باہر آنے لگیں کہ انہیں قونصل خانے میں بے دردی سے قتل کردیا گیا ہے۔ قتل سے پہلے ان کی انگلیاں کاٹی گئیں اور پھر کسی آلے سے ان کا سر بھی کاٹ دیا گیا۔ اور یہ کہ ان کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے غائب کردیا گیا ہے۔
یہ خبر اور تصاویر بھی عام ہوئیں کہ عین قتل والے دن پندرہ سعودی افراد خصوصی تیاروں سے ترکی آکر خاقشجی کی آمد کے ساتھ ہی قونصل خانے پہنچے تھے، اور اسی شام واپس چلے گئے۔ ان میں سعودی دربار اور جاسوسی اداروں سے تعلق رکھنے والے اہلکار شامل تھے، جن میں بعض کو سعودی ولی عہد کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
اس کے بارے میں آپ خود بھی تحقیق کر سکتے ہیں، یہ آپ کو کوئی جاسوسی کہانی بھی لگے گی۔ اس خبر کے آتے ہی عالمی صحافت میں ایک تہلکہ مچ گیا ۔ کیونکہ یہ دنیا بھر کے صحافیوں کے لیئے ایک تشویش ناک بات تھی۔اس سے پہلے دنیا بھر میں صحافی آمرانہ ممالک میں جبر کا نشانہ بنتے تو رہے ہیں ، لیکن اس قدر بیباکی سے ایسے قتل کی خبر نئی تھی۔
سعودی عرب نے فوراً اس خبر کی تردیدکی اور کہا کہ خاشقجی تو قونصل خانے سے چلے گئے تھے۔ اس خبر کے فوراًبعد امریکی کانگریس کے اراکین نے ایک قانون کے تحت وہاں کے صدر کو پابند کیا کہ وہ اس معاملہ کی مکمل تحقیق کروائیں اور چار ماہ میں اس کی رپورٹ پیش کریں، اور اگر سعودی اس جرم میں ملوث پائے گئے تو ان پر پابندیاں لگائیں۔ صدر ٹرمپ اس معاملہ پر آیئں بایئں شایئں کرتے رہے اور سعودیوں کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
سعودیوں نے بادلِ ناخواستہ ترکی اداروں کو اپنے قونصل خانے کی تلاشی کی اجازت دی۔ وہاں متعین قونصلر اور ان کے اہلِ خانہ قتل کے دوسرے ہی روز ترکی چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ ترکی اس معاملہ پر روزانہ نئی سنسنی خیز خبریں جاری کرتا رہا۔ اور اس کے بعد اہم مغربی ممالک نے سعودی عرب سے دوری اختیار کرنا شروع کی اور اہم ترین عالمی اخبارات نے اس معاملہ پر امریکہ، سعودی عرب ، اور ترکی پر حقائق واضح کرنے پر زور دیا۔
امریکی صدر بار بار اپنی رائے بدلتے رہے۔ ان کاکہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے گہرے کلیدی تزویری تعلقات ہیں ، اور انہوں نے حال ہی میں سعودی عرب کو تقریباً سو ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں سعودی عرب پر دباو ڈالنا پڑا ۔ بالآخر سعودی عرب نے کئی ہفتوں کی ردو قدح کے بعد یہ اقرار کرلےا کہ اس کے اہل کاروں نے بلا اجازت خاشقجیؔ کو استنبول میں قتل کیا اور اس ضمن میں سینیر سعودی عہدیداروں کو برطر ف کیا گیا ہے اور اٹھارہ افراد کو زیرِ حراست لیا ہے۔
اس اعتراف کی تفصیلات ترکی خبروں سے مختلف ہیں۔ اور یہ کہ سعودی ولی عہد خود اس کی تحقیق کریں گے۔ ترکی کے صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی اس بارے میں حقائق کو نشر کریں گے۔
جمال خاشقجیؔ کے قتل میں عالمی سیاست کی اٹھا پٹک سے قطعِ نظر جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک صحافی تھے، اور کسی بھی صحافی یا صاحبِ رائے کا قتل انسانی حقوق کا جرم ہے۔ ہم اس جیسے جرائم پاکستان، بنگلہ دیش ، اور دیگر ممالک میں روز دیکھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ان ممالک میں صحافیوں کو اغوا کرنا، ان پر تشدد کرنا ، ان کو ہلاک کرنا، اور ان کے جسموں کے ٹکڑے کرنا ، روز کا معاملہ ہے۔
پاکستان میں اب سنسر شپ کے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے ہیں، اور سختی اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑے اہم صحافی بھی اب خود کو خود ہی سنسر کر رہے ہیں، اور احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ لیکن دیانت دار صحافی اب بھی ساری دنیا میں حق گوئی کے جنون میں اپنی ذمہ داری نباہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاعر کے اس شعر کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں کہ: لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں۔ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔
♦
One Comment