حسن مجتبیٰ
پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان کے صحافی اور کالم نگار سیرل المیڈا کے فرشتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ملک کے دو سابق وزرائے اعظم کے ساتھ غداری کے مقدمے میں شریک ملزم ہو گا۔
نہ ہی سیرل المیڈا، جب اسلام آباد میں اپنے گھر سے ملتان کی طرف سفر کو نکلا تھا، تب اسے خبر تھی کہ وہ جائے گا تو سرائیکی صوبے سے متعلق اسٹوری کرنے لیکن وہ انٹرویو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا کرے گا۔ ہوا یہ کہ جب سیرل ملتان پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ نواز شریف بھی ملتان میں انتخابی مہم کا جلسہ کر رہے ہیں۔ سیرل نے انٹرویو کی درخواست کی جو کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے منظور کر لی۔ کون سا پیشہ ور صحافی ہو گا، جو نہ چاہے گا کہ وزیراعظم سے وہ انٹرویو نہ کرے؟
پہلے یہ انٹرویو ملتان ایئرپورٹ کے وی آئی پی ہال میں نواز شریف کی لاہور واپسی کی پرواز سے قبل ہونا تھا لیکن پھر سیرل المیڈا پر انتظامیہ نے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی اور پھر وہ انٹرویو نواز شریف کے ایک دوست کے گھر پر ہوا۔
اپنے تئیں یہ سیرل اور اس کے اخبار کا ’’اسکوپ‘‘ تھا۔ لیکن مستقبل کے مورخ کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ، جو اس انٹرویو کے بعد ہوا، وہ سب تاریخ کا حصہ بن رہا ہے۔ لیکن یہ شاید تاریخ نہ ہو کہ اگر سیرل نواز شریف سے یہ انٹرویو نہ بھی کرتا تب بھی اس پر غداری کا مقدمہ قائم ہونا ہی تھا۔ باخبر لوگ کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف یہ فیصلہ کر چکے تھے۔ افراد کی یادداشت کمزور ہوتی ہے لیکن اداروں کی نہیں۔
سیرل کو دوستوں اور ہمدردوں نے یہی سمجھایا تھا کہ نہ کر نہ کر!۔
لیکن ’’بوائز بوائز‘‘ ہوتے ہیں اور ویسے بھی غم اور بھی ہیں زمانے میں ان کے سوا۔ سیرل المیڈا نے اسلام آباد میں اپنے گھر کے اندر داخلی دیوار پر ملک کے بانی کی تصویر بھی لگا رکھی تھی، شاید اس خیال سے کہ سیرل کو کبھی کوئی پکڑنے آئے تو شاید محمد علی جناح کی تصویر کو دیکھ کر اس پر ’ہاتھ ہولا‘ رکھے یا بابا جناح اس پر آئی ہوئی بلائیں ٹال دیں! لیکن سیرل کی پتلی گردن ہے اور وہ دو وزرائے اعظم کے بیچ حلال کیا جا رہا ہے۔
سیرل المیڈا کا تعلق کراچی کے دل صدر کی قدیم رومن کیتھولک عیسائی گوانی کمیونٹی سے ہے۔ صدر کی مینسفیلڈ اسٹریٹ سے لے کر علامہ داؤد پوٹو یا پرانی نمائش والی تین چار گلیوں تک پھیلی ہوئی یہ ملازمین، ٹیچروں، موسیقاروں، پولیس والوں، پادریوں اور راہباؤں کی محدود لیکن تعلیم یافتہ کمیونٹی ہے، جس میں سیرل پیدا ہوا۔
سیرل سینٹ پیٹرکس اسکول کا ہونہار طالب علم تھا، اسی اسکول سے پرویز مشرف نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ بعدازاں سیرل ایک اسکالرشپ پر آکسفورڈ جا پہنچا اور وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ واپس آیا تو ڈان کے پڑھنے والوں میں اردیشر کاوسجی کا جانشیں سمجھا گیا۔
شاید ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک صحافی کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ملک پاکستان میں حکومتیں سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمات قائم کرتی رہی ہیں۔
غداری کے ملزمان کی ایک لمبی اور تاریخی فہرست ہے، خان عبدالغفار خان، شیخ مجیب الرحمان جی، ایم سید، عبدالصمد خان اچکزئی، فیض احمد فیض، میجر جنرل اکبر خان، خان عبدالولی خان، خیر بخش مری، عطااللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، تاج محمد لانگاہ، ممتاز علی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ، افضل بنگش اور کئی دیگر کے خلاف سیاسی مقدمات ہی بنے۔
پاکستان میں آج کل جو صحافیوں کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ تو بقول سینئر صحافی غازی صلاح دین کے ضیا الحق کے مارشل لاء میں بھی نہیں ہوا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ مشرف کے ہی دنوں سے فوج میں میجر جنرل سطح کے چھ عہدیدار میڈیا پر اور تیس ہزار اہلکار سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ،
سو جاؤ عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ و بیدار کھڑے ہیں
DW