نیب نے پنجاب کےوزیراعلیٰ مسلم لیگ کےصدرشہبازشریف کوآشیانہ ہاوسنگ سکیم میں مبینہ کرپشن کے الزمات کے تحت گرفتارکیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی گرفتاری پنجاب کے سابق چیف سیکرٹیری اورسابق وزیراعظم نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے وعدہ معاف گواہ بننے پر ممکن ہوئی ہے۔
ہمارے فوجداری قانون میں وعدہ گواہ کی کوئی متعین تعریف موجود نہیں ہے۔ جب کسی فوجداری مقدمہ میں واضح اورقابل اعتماد شہادتیں موجود نہ ہوں تو شریک ملزموں میں سے کسی ایک کو مقدمہ کے اختیام پر رہائی دینے کے وعدے پر اقبالی بیان دینے پر تیار کیا جاتا ہے جس میں وہ وقوعہ میں ان افراد یا فرد کا نام اور رول بیان کرتا ہے جس کےایما پر اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ رہائی کے بدلے اقبالی بیان دینے والا یہ ملزم وعدہ معاف گواہ کہلاتا ہے
پاکستان میں وعدہ معاف گواہ کو لے کرسیاسی قیادت کے خلاف مقدمہ بنانےکا آغاز جنرل ضیا الحق کے مارشل کے دورمیں ہوا تھا۔جولائی 1977 میں مارشل لا نافذ ہواتوقومی اتحاد اورذوالفقارعلی بھٹو کے چند ساتھیوں کومارشل لاحکام نے حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔ جب بھٹورہا ہوکرکراچی گئے توعوام نے ان کا بڑا پر جوش استقبال کیا تھا۔ فوجی حکومت کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا کہ ایک وزیراعظم جسے انھوں نے برطرف کرکے مارشل لا نافذ کیا ہوعوام اس کا نہ صرف پرجوش اسقبال کریں۔ بھٹوکا استقبال کا مطلب مارشل لا کے نفاذ کی مخالفت کے مترادف تھا فوجی حکام نے اسی وقت بھٹو سے چھٹکارا پانے کا سوچنا شروع کردیا تھا۔
اس مقصد کے لئے ان کی معاونت جسٹس مولوی مشتاق حسین جو بھٹو سے اس بناپر ناراض چلے گئے تھے کہ انھیں لاہور کورٹ کا چیف جسٹس کیوں نہیں بنایا گیا حالانکہ وہ تمام ججز میں سنئیر تھےا ور بیرسٹر ایم انورجو پیپلزپارٹی کے رکن بعد ازاں رکن قومی اسمبلی اوروفاقی وزیرریحانہ سرور مرحومہ کے دیور تھے، نے کی تھی۔
بیرسٹر ایم انور خاندانی تنازعات کی بنیادپراپنی بھابی سے سخت ناراض تھے، اور اسی بنا پر وہ پیپلزپارٹی کے بھی مخالف تھا۔ اب انھیں موقع مل گیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنا بدلہ چکائیں۔ انھوں نے اپنی خدمات فوجی حکام کو مارشل لا کے نفاذ کے فوری بعد پیش کردیں۔ بیرون مقیم مولوی مشتاق کو فوجی حکام نے فوری ملک بلواکر نہ صرف لاہورکورٹ کا چیف جسٹس بنادیا بلکہ ساتھ ہی قائم مقام چیف الیکشن کمشنربھی بنادیا۔ ان کو ٹارگٹ دیا گیا کہ وہ بھٹو سے جان چھڑانے کے لئے مارشل لا حکومت کی مدد کریں انھوں نے احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی ایف آئی آر برآمد کی جس پر بیرسٹر ایم انور اور ایف آئی اے کے ایک ڈائیریکٹر عبدالخالق نے کام کرنا شروع کردیا۔
پہلے جب بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو جسٹس صمدانی نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ اس نے مارشل لا حکومت کو سراسیمہ کردیا چنانچہ اب انھوں نے بھٹو کو مارشل لا ضابطوں کے تحت گرفتار کرلیا تاکہ کوئی عدالت ان کی ضمانت منظورنہ کرسکے۔۔فوجی حکومت نے مارشل لا کے نفاذ کے کچھ دنوں بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود جس کا تعلق پولیس سروس تھا کو ایبٹ آباد سے گرفتار کرلیا ۔
مسعود محمود کے بارے میں بتایا جاتا ہے انھوں نے ایس پی ڈھاکہ کے طور پر بنگالی زبان کے حق میں مظاہرہ کرنے طلبا پر گولی چلائی تھی جس کی بدولت کئی طلبا شہیدہوگئے تھے۔ گرفتاری کے کچھ دنوں بعد مسعود محمود کوراولپنڈی کے مجسٹریٹ غضنفر ضیا کی عدالت میں پیش کیا گیاجہاں اس نے اٹھارہ صفحات پر مشتمل اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا تھا لیکن اپنے اس بیان میں اس نے کہیں بھٹو کو کسی قتل میں ملوث نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے گناہ تو تسلیم کئے تھے لیکن اپنے اس بیان میں اس نے کہیں یہ نہیں کہا تھا کہ ان گناہوں کا ارتکاب اس نے بھٹو کی ایما پر کئے تھے۔
مسعود محمود کے اس بیان میں حکومتی وکلا کو ایسا مواد نہیں ملا تھا جس کی بنیاد پر بھٹو کو مقدمہ قتل میں ملوث کیا جاسکے چنانچہ چند ہفتے بعد مسعود محمود کو دوبارہ لاہور کے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنے نئے اقبالی بیان میں احمد رضا قصوری کے باپ کے قتل کااعتراف کیا اور کہا کہ یہ قتل انھوں نے بھٹو کے ایما پر کیا تھا۔ مسعود محمود کا یہ وہ بیان تھا جس کی بنیاد پر بھٹو کو مقدمہ قتل میں ملوث کرکے پھانسی دی گئی۔
مسعود محمود نے اپنا دوسرا اقبالی بیان اپنے برادر نسبتی ( لاہور کے سیٹھ عابد)کے دباواورمنانے پردیا تھا جو بھٹو سے بہت ناراض تھا کیونکہ بھٹو نے اسے سونے کے سمگلنگ کے الزام میں نہ صرف گرفتار کیا تھا بلکہ اس کا سونا بھی ضبط کر لیا گیا تھا۔ سیٹھ عابد حیات ہیں اور لاہور کے بہت بڑے پراپرٹی ٹائکون ہیں۔ مقدمہ قتل کے بعد مسعود محمود کو رہا کردیا گیا تھا۔ وہ امریکہ چلا گیا اور وہاں اس نے سٹور قائم کرلیا تھا اور وہیں کچھ سال قبل اس کی موت ہوئی تھی۔ اس کی سطانی گواہی نے پاکستان کی سیاست میں وہ بحران پیدا کیا جس کا خمیازہ پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔
اکتوبر 1999میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے طیارہ فضا میں اغوا کرنے کا الزام وزیراعظم نواز شریف پر لگایا گیا تھا۔ اس گواہ میں چونکہ شہادت ایسی موجود نہیں تھی جو نواز شریف کو اس طیارہ اغوا کے مقدمے میں ملوث کر سکتی چنانچہ یہاں بھی فوجی جنرلز نے وعدہ معاف گواہ پید اکیا اور یہ تھا امین اللہ چوہدری جو اس وقت ڈی جی سول ایویشن اتھارٹی تھا۔
اس نے اس شرط پر کہ اس اقبال بیان دینے اور نواز شریف کو ملوث کرنے پر بری کردیا جائے، اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ امین اللہ کے بیان پر کراچی دہشت گردی عدالت نے دو دفعہ عمر قید کی سزادی تھی جسے سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ نے بحال رکھا تھا یہ سزا نوسال بعد سپریم کورٹ بنچ نے ختم کی تھی جسٹس ناصرالملک نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ وعدہ معاف گواہ کے بیان پرانحصارکرکے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ امین اللہ چوہدری نے چند سال قبل اپنی خود نوشت بھی لکھی تھی جس میں انھوں نے اپنے اس بیان پراظہار تاسٖف کیا تھا اورتوجیح یہ دی تھی کہ وہ احکام ماننے پرمجبورتھے۔
اب پھرنیب نے جس کے پس پشت فوجی سائے موجود ہیں شہبازشریف کی گرفتاری کے لئے بیوروکریٹ فواد حسن فواد کے اقبالی بیان کا سہارا لیا ہے یہ بیان عدالت میں ثابت ہوتا ہےیا نہیں اس بارےکچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن ماضی کے تجربے کی بنیا پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی قیادت خواہ وہ کتنی بھی کرپٹ کیوں نہ ہواسےغیرسیاسی طریقے سے سیاسی میدان سے نہیں نکالا جاسکتا ۔اگرزبردستی نکال بھی دیا جائے تو وہ ایک بار پھرکم بیک کرلیتے ہیں۔ سیاست دانوں کو سیاسی میدان سے نکالنے کا طریقہ سیاسی ہے اوروہ ہے الیکشن۔ اس کے علاوہ تمام طریقے فضول اورناکارہ ہیں۔
ممتاز بیورو کریٹ فواد حسن فواد کے وعدہ معاف گواہ بننے پر سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ بیورو کریٹس بڑے زبردست لوگ ہوتے ہیں ۔ حکمرانوں کو پیسے بنانے کے گر بتاتے ہیں بقلم خود عمل کرتے ہیں اور جب پکڑے جائیں تو سلطانی گواہ بن جاتے ہیں اور بچ گئے تو پینشن پلاٹ اور مراعات لینے کے بعد سفارت، وزارت اور مشاورت کے لئے شیروانی پہن کر تیار ہوجاتے ہیں۔ جو کرپشن نہیں کرتے ان کو ایسا کرنے کے گر نہیں آتے یا موقع نہیں ملتا وہ پنشن کے بعد ایک کتاب “جو میں نے دیکھا” کی طرز پر لکھ کر ایماندار بابو کا تمغہ سجانے لیتے ہیں۔
بیورو کریٹ چاہےجیسے بھی ہو سب میں کچھ باتیں جو مشترک ہے وہ یہ کہ ان کے دور میں جتنے اچھے کام ہوئے ہیں انھوں نےخود کئے ہیں یا ان کے مشورے سے ہوئے ہوتے ہیں اور جو غلط کام ہوئے وہ دوسروں نے کئے ہوتے ہیں۔ ایک اور بات جس پر بیوروکیٹ سب متفق ہیں وہ یہ کہ ساری برائی سیاستدانوں میں ہے۔ ہر بیروکریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی تبلیغ بھی۔
♦