پاکستان میں کم زورجمہوریت، جمہوری اداروں کی بربادی اورآمریت کے تسلط کی تاریخ بیان کی جائےتویہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کے پہلے وزیرخزانہ اورتیسرے گورنرجنرل ملک غلام محمد کا ذکرنہ آئے۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کی برطرفی، اسمبلی کی توڑ پھوڑ اور سول اورفوجی افسر شاہی کے باہمی اشتراک عمل اور ملکی سیاست میں مداخلت کاذمہ دار ملک غلام محمد کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
کیا پاکستان میں آمریت کے قیام کا واحد ذمہ دار گورنرجنرل ملک غلام محمد تھا یا ایسے حکومتی اورریاستی عہدیداراورسیاسی اورسماجی قوتیں بھی اس کی ہمنوا اور شریک کار تھیں جن کی بقا پاکستان میں جمہوریت کی نفی اورآمریت کے قیا م میں مضمر تھی۔اگر حکومتیں توڑنا ہی اس کا جرم تھا تویہ کام سب سے پہلے بانی پاکستان محمد علی جناح نے کیا تھا۔
قیام پاکستان کے چند دن بعد انھوں نے صوبہ سرحدمیں قائم وزیر اعلی ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ بعد ازاں انھوں نے سندھ میں وزیراعلی ایوب کھوڑو کی حکومت کو بھی برطر ف کیا تھا۔ جناح کے ان اقدامات کو پیش نظر رکھا جائے تو ملک غلام محمد توبانی پاکستان کے نقش قدم پرچل رہا تھا۔
یہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم کسی حادثے یا واقعہ کا ذمہ دارکسی ایک فرد واحد کو ٹھہرا تے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم اجتماعی ذمہ داری کا تعین کرنے سے بچ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام کا ذمہ دار صرف جنرل یحییٰ خان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یحییٰ خان غلطیوں پر غلطیا ں کئے جارہا تھا تو دوسرے جنرلز کہاں تھے ۔انھوں اس وقت راست اقدا م کرتے ہوئے اس کو ایسا کرنے سے کیوں نہ روکا۔
جنگ لڑنا اور اس کی حکمت عملی ترتیب دینا ڈائیریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں جاری فوجی آپریشن اور بھارت کے ساتھ جنگ کے دوران جنرل گل حسن، ڈی جی ایم او تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سے باز پرس کی جاتی اور ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے سزادی جاتی لیکن اس کے برعکس اسے فوج کا سربراہ بنادیا گیا۔ ہم آج تک یحییٰ خان کو مطعون کئے چلے جارہے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں جنرلز اور سیاست دانوں کے بارے میں کوئی بات تک نہیں کرتا ۔
کچھ یہی صورت حال ملک غلام محمد کے بارے میں بھی ہے۔سبھی اس کو مطعون کئے جاتے ہیں لیکن وہ سیاست دان، سول اور فوجی جنرلز جنھوں نے اس کےغیرجمہوری اقدامات کا ساتھ دیا تھا وہ بری الذمہ قرار پاچکے ہیں۔ جب غلام محمد نے وزیراعظم محمدعلی بوگرہ کی حکومت کو برطرف کیا اوردوبارہ اسے ہی وزیراعظم مقررکیا تواس نئی کابینہ کے ایک رکن حسین شہید سہروردی بھی تھے جنھیں نہ صرف آج بہت بڑاجمہوری لیڈر سمجھا جاتا ہے بلکہ مشرقی اورمغربی پاکستان کےاتحاد کاعلم برداربھی ۔
ملک غلام محمد اندرون شہر لاہور موچی دروازہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں ابتدئی تعلیم لاہور میں اورگریجوایشن علی گڑھ یونیورسٹی سے کی تھی۔ انھوں نے پچیس سال کی عمر میں مقابلے کا امتحان پاس کرکےانڈین سول سروس جا ئن کی تھی۔ ان کی ملازمت کا زیادہ عرصہ انڈین ریلوے میں گذرا تھا۔انھوں نےگول میز کانفرنس میں نواب آف بہاولپورکی نمائندگی کی تھی اورریاست حیدرآباد میں نظام عثمان علی خان کے مشیر مالی اموربھی رہے تھے۔
سنہ1946 میں قیام پاکستان سے قبل جو عبوری حکومت بنی تھی اس میں مسلم لیگ کی طرف سے لیاقت علی خان وزیر خزانہ مقررہوئے تھے۔ جناح نے لیاقت علی خان کی معاونت کے لئے ملک غلام محمد کا انتخاب کیا تھا کیونکہ انھیں مالی امور کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ملک غلام محمد ،جناح کا انتخاب تھا۔ملک غلام محمد ایک اوربیوروکریٹ چوہدری محمد علی کا انتخاب بھی جناح ہی نے کیا تھا۔ ملک غلام محمد اورچوہدری محمد علی قریبی ساتھی تھے اور دونوں محدود جمہوریت پریقین رکھتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد جو پہلی کابینہ میں تشکیل پائی تھی اس میں ملک غلام محمد وزیر خزانہ مقرر ہوئے تھے۔ پاکستان کا پہلا بجٹ اورپہلا پانچ سالہ منصوبہ انھوں نے ہی بنایا تھا۔قیام پاکستان کے فوری بعد امریکہ سے فوجی اوراقتصادی امداد کے لئے جانے والے وفد کی قیادت بھی ملک غلام محمد نے کی تھی۔
جناح کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنرجنرل مقرر ہوئے تھے۔ دراصل یہ مشرقی اور مغربی پاکستان کےمابین تقسیم اقتدارکا فارمولا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کا خیال تھا کہ وہ گورنر جنرل بن کروہی اختیارات استعمال کریں گے جو جناح بطور گورنر جنرل استعمال کیا کرتے تھے لیکن جناح اورخواجہ ناظم الدین کی شخصیتوں میں بہت فرق تھا۔ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی نے خواجہ ناظم الدین کو بے بس کردیا اور وہ صرف نا م کے سربراہ مملکت بن کر رہ گئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جب ایک بارپھرانتقال اقتدار کا مسئلہ درپیش ہوا تو خواجہ ناظم الدین نے خود کے لئے وزیر اعظم کاعہدے کا انتخاب کیا تھا حالانکہ اس وقت غالب خیال یہ تھا کہ ملک غلام محمد وزیراعظم مقررہوں گے لیکن خواجہ ناظم الدین نے پہل کاری کرتے ہوئے خود کو وزیراعظم نامزد کرلیا یعنی گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے خواجہ ناظم الدین کووزیراعظم نامزدکردیا تھا۔خواجہ ناظم الدین کی حکومت کی برطرفی اورمحمد علی بوگرہ کی بطوروزیراعظم تقرری کے اقدام پر ملک غلام محمد کو فوجی جنرلزبالخصوص جنرل ایوب کی مکمل تائیدو حمایت حاصل تھی۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد کی سب سے بڑا سیاسی گناہ قومی اسمبلی توڑنا سمجھا جاتا ہے۔ ملک غلام محمد نے جس اسمبلی کو توڑا تھا وہ تواپنی نمائندہ حیثیت کھو چکی تھی۔ مشرقی بنگال سے اس اسمبلی میں منتخب ہونے والے اراکین کو مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی کے ارکان نے منتخب کیا تھا ۔1954 میں ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں وہ سارے ارکان ہار گئے تھے جنھوں نے قومی اسمبلی کے ارکان کو منتخب کیا تھا۔ اب مشرقی بنگال کے ارکان صوبائی اسمبلی یہ مطالبہ کررہے تھے کہ کراچی میں قومی اسمبلی میں بیٹھے ارکان قومی اسمبلی اب ان کے نمائندہ نہیں رہے۔
قومی اسمبلی مشرقی بنگال کی حد تک نمائندگی کے حق سے محروم ہوچکی تھی ۔ مولوی تمیزالدین جو اس قومی اسمبلی کے سپیکر تھے ،صوبائی اسمبلی میں ہونے والی شکست کی بنا پر اپنی نمائندہ حیثیت کھو چکے تھے لیکن وہ یہ تسلیم کرنے سے انکار ی تھے۔ ملک غلام محمد نے یقیناًہوس اقتدار میں قومی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا لیکن مولوی تمیز الدین کا موقف بھی کوئی جمہوری بنیاد نہیں رکھتا تھا۔ مولوی تمیز الدین اپنے غیر جمہوری موقف کا دفاع جمہوری اصولوں کے نام پر کر رہے تھے ۔
♥