کنفیوشس نے کہا تھا اچھی حکمرانی میں غربت شرم کی بات ہے ، اور بری حکمرانی میں دولت ایک شرمناک چیز ہے۔ اس چینی فلاسفر نے بہت پہلے ایک پیچیدہ حقیقت کو سادہ زبان میں بیان کر دیا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام غریب ممالک میں غربت کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ خراب حکمرانی یا بیڈ گورننس ہے۔
خراب حکمرانی ایک وسیع اصطلاح ہے، جس میں بد انتطامی سے لیکر بد عنوانی تک بہت کچھ آجاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں یہ غربت کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ بد انتطام اور خراب حکمرانی کا شکارحکومتیں ملک میں موجود وسائل کو بے دردی سے ضائع کرتیں ہیں۔ وسائل کانا جائز اور غلط استعمال کرتیں ہیں۔ اور نئے وسائل پیدا کرنے یا تلاش کرنے میں نا کام رہتی ہیں۔ خراب حکمرانی یابد انتطام حکومت کی موجودگی میں کسی ملک میں خواہ کتنے ہی وسائل، خزانے اور دولت کے انبار کیوں نہ ہوں ملک سے غربت ختم نہیں ہو سکتی۔
چونکہ حکمران طبقات یا تو سرے سے ان وسائل کے استعمال کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ یا پھر ان کی بد انتظامی کی وجہ سے یہ وسائل غلط استعمال ہو جاتے ہیں۔ یہ وسائل نا جائز طریقے سے چند ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ یا پھر لوٹ لیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں گڈگورننس یا اچھی حکمرانی کو کسی ملک کی ترقی کے لیے پہلی شرط قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا میں جس ملک نے بھی کامیابی سے غربت کا خاتمہ کیا، ترقی اور خوشحالی حاصل کی، اس کی ابتدا اچھی حکومت یعنی گڈ گورننس سے ہوئی۔
پاکستان میں بھی یہ بات غربت کے خاتمے کی بحث کا نقطہ آغاز ہے۔ ایک اچھی حکومت کے قیام کے بغیر ترقی کی سمت میں سفر کا آغاز ممکن نہیں ہے۔ اچھی حکومت کے قیام کے کئی عناصر ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم اور بنیادی عنصر جمہوری نظام کا قیام اور اس کا تسلسل ہوتا ہے۔ جمہوریت ایک ایسا خود کار احتسابی نظام ہے جو اپنے راستے کے کانٹے خود ہی صاف کرتا چلا جاتا ہے۔ گندے انڈوں کو نظام سے باہر پھینکتا رہتا ہے۔ نا اہل اور بد دیانت لوگوں کی چھانٹی کرتارہتا ہے۔ اور ہر نئے جمہوری عمل یعنی انتخابات کے دوران پہلے سے بہتر لوگوں کو آگے لاتا رہتا ہے۔
یہ سلسلہ عمل اگر جاری رہے تو بلاخراچھی حکومت یا گڈ گورنس کا تصور حقیقت کا روپ دھار لیتاہے۔ پاکستان میں غربت کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک وجہ خراب حکومت اور بیڈ گورننس ہے۔
تاریخی طور پر دنیا میں دولت کی تقسیم کے دو طریقے رہے ہیں۔ ایک براہ راست انقلاب، جس کے ذریعے دولت کا چند ہاتھوں سے ارتکاز ختم کر کے اس کو زیادہ منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ راستہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنایا گیا۔ ان کی بڑی مثالوں میں 1917 کا روس کا انقلاب، 1949 کا چین کا انقلاب، اور اس طرح کیوبا سمیت کئی دوسرے ممالک کے انقلاب شامل تھے۔ ان انقلابوں کے ذریعے شروع شروع میں ان ملکوں مین بڑے پیمانے پر قومی وسائل کو از سر نو تقسیم کیا گیا۔ اچھی حکومتیں یعنی گڈ گورننس قائم ہوئی۔ جس کی وجہ سے ان ممالک میں بہت کم مدت میں آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو غربت سے باہر نکالا گیا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں حکومتیں بد انتظامی اور نظریاتی انتشار کا شکار ہوتی رہی جس کے نتیجے میں ان ملکوں میں بھی آمریت پسندی، لوٹ مار، اقربا پروری اور بد عنوانی کا چلن عام ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں نے اپنی ناہلی اور ناکامی چھپانے کے لیے سیاسی اور ثقافتی جبر شروع کر دیا۔ شہری آزدیوں اور انسانی حقوق کو بڑے پیمانے پر سلب کیا گیا۔ اس طرح یہ ملک بھی بد انتطامی اور خراب حکمرانی میں مبتلا ہو کر رد انقلاب کا شکار ہو گئے۔
تاریخی طور دولت کی تقسیم کا دوسرا طریقہ ارتقائی اور اصلاحی رہا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو کچھ جمہوریتوں نے اختیار کیا۔ اس طریقہ کار کو سویڈن، ناروے، ڈنمارک وغیرہ میں پزیرائی ملی۔ اس طریقہ کار کی بنیادیہ ہے کہ ملک کا انتطام ایک مکمل اور شفاف جمہوری عمل کے تابع ہو۔ عوام کو شہری آزادیاں اور انسانی حقوق میسر ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جائیں جس میں خوشحالی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچائے جائیں۔
اس نظام کا نقطہ ماسکہ یہ ہے کہ کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں تعلیم، صحت ، روٹی ، کپڑا اور مکان وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں تعلیم و صحت کی زمہ داری ریاست لے لیتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کو مفت اور لازمی بنیادی تعلیم ، ہر شہری کو علاج کی سہولت فراہم کرناریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ریاست کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو خوراک، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا ور سر چھپانے کے لیے چھت مہیا کرے۔ اور یہ لوازمات خیرات کے طور پر نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیے جائیں۔
جن جمہوری ریاستوں نے یہ ذمہ داری قبول کی، اپنے شہریوں کی ان ضروریات کو ان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا، ان کی عزت نفس کا تحفظ کا عہد کیا، وہ بڑی حد تک اپنی اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ ان ریاستوں میں بھی تمام انسانی مسائل کا مکمل حل نہیں ہے۔ ایک مثالی معاشرے کا خواب یہاں بھی ابھی ادھورا ہے، مگر جو کچھ یہاں انسان کو میسر ہے وہ انسان کے صدیوں کی جہدو جہد کا حاصل اورخوابوں کی تعبیر ہے۔ یہاں بد عنوانی سے پاک شفاف نظام ہے۔ معاشی و سماجی انصاف ہے۔ احتساب و جواب دہی کا عمل ہے۔ انسان کو عزت و وقار حاصل ہے ، اور بہتری کی طرف سفر جاری ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی غریب ملک میں اس طرح کے تجربات کو ہو بہو نہیں دہرایا جا سکتا، مگر سماج کو ان خطوط پر منظم کر کہ اس طویل سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے، جو بلاآخر ایسی کامیابیوں پر منتج ہو۔ اس سفر کے آغاز کے لیے خاص عزم اور ارادے کی ضرورت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ سماج کے تمام اکثریتی فعال طبقات مسائل کا پورا ادراک رکھتے ہوں اورحل کے لیے کسی ایک خاکے پر اتفاق کرتے ہوں۔
پاکستان جیسے معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ سماج میں دولت کی منصافانہ تقسیم کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دو طریقوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ قانون کی حکمرانی کا قیام ہے۔ قانون کی حکمرانی کا دولت کی منصفانہ تقسیم میں بنیادی کردار ہے۔ عمومی طور یہ دیکھا گیا کہ جن لوگوں کے پاس زیادہ دولت و جائداد ہے ان میں قانون کا کم احترام ہے۔ یا قانون ان پر کم از کم لاگو ہوتا ہے۔ ٹیکس کی عدم ادئیگی یا کم ادئیگی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا بھر میں ٹیکس دولت کی تقسیم کا ایک مسلمہ طریقہ ہے۔ اس میں صرف صاحب ثروت ہی نہیں، ہر آمدنی والا شہری اپنی آمدنی پر ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ریاست یہ آمدنی اجتماعی کاموں پر خرچ کرتی ہے۔
ان اجتماعی کاموں میں سڑکیں، ہسپتال، سکول، بجلی ، پانی اور اس نوعیت کی دوسری اجتماعی ضروریات شامل ہوتی ہیں۔ اچھی اور منصفانہ حکومتوں کے اندر ان سہولیات سے تمام شہری بلا تخصیص استفادہ کرتے ہیں۔ یہ دولت کی تقسیم کا ایک سیدھا سادا طریقہ ہے۔ لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہو رہا ہے کہ بیشتر لوگ جن کی معقول آمدنی ہے، وہ سرے سے ٹیکس کے تردد سے ہی آزاد ہیں۔ ٹیکس وصول کرنے کا ناقص انتظام ہے۔ یہاں ریاستی اہلکار ٹیکس وصول کرنے کے بدلے رشوت لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ریاست ایک معقول آمدنی سے محروم رہ جاتی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے علاوہ بھی پاکستان میں غربت کے کئی اسباب ہیں۔ سدباب کے بھی کئی طریقے ہیں۔ غربت کے دیگر اسباب اور ان کے سدباب کے طریقوں کو باری باری دیکھنے کی ضرورت ہے۔
♠