آصف جاوید
ترقّی ایک کثیر الجہت سماجی عمل ہے۔ ترقّی کی کوئی ایک سمت یا جہت نہیں ہوتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ کوئی ملک معاشی طور پر تو ترقّی یافتہ ہو، مگر سماجی، سیاسی طور پرپسماندہ ہو، یا سماجی طور پر بہت ترقّی یافتہ ہو، مگر معاشی طور پر بدحال ہو۔ سیاسی، سماجی اور معاشی ترقّی ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہے۔ ۔ کسی بھی معاشرے میں ترقّی جب بھی ہوگی ، ہر سمت اور جہت میں ہوگی۔
ترقّی کی قوّتِ متحرکہ “آزادی” ہے۔ یہاں آزادی کا مطلب مادرپدرآزادی یا ننگا پن نہیں، بلکہ فکری و شخصی آزادی ہے۔ ایسی آزادی جس میں معاشرے کا ہر فرد اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے، اپنی فکر، سوچ، فہم، فراست، معقولیت پسندی، اپنی صلاحیتوں کے مطابق آزادی سے اپنی زندگی کی ترجیحات طے کر سکے۔
یہ ریاست یا سماج کا کام نہیں کہ وہ فرد کی شخصی و فکری آزادی کو سلب کرے اور فرد کو مجبور کرے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو سماجی پابندیوں یا ریاستی ترجیحات کے مطابق استعمال کریں۔ حقِ انتخاب (فریڈم آف چوائس) ریاست یا سماج کا ڈومین نہیں ہے، یہ فرد کا ڈومین ہے۔ دنیا میں وہی ممالک ترقّی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں، جن میں شہری کو سب سے زیادہ فریڈم آف چوائس ملتا ہے۔ وہ معاشرے جو اپنے شہریوں کو ترقّی کے یکساں مواقع، مقابلے کی ثقافت اور منصفانہ ماحول فراہم کرتے ہیں، بڑی تیزی سے ترقّی کرتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، جرمنی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
سماج میں ترقّی صرف آزادی دینے سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ جو سماج آزادی دیتا ہے وہ ذمّہ داری بھی دیتا ہے۔ آزادی کا تصوّر ذمّہ داری کے تصوّر کے بغیر محال ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ سماج فرد کو مکمّل ازادی دے دے مگر فرد اپنے عمل کے نتائج کی ذمّہ داری قبول نہ کرے۔ آزاد معاشرے اپنی شہریوں سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے مطابق برتائو کرتے ہیں۔ شہری کو آزادی دیتے ہیں، مگر شہری اپنے رویّوں کے برتاو کے نتائج کا خود ذمّہ دار ہوتا ہے۔
اب ہم معاشی ترقّی کی بات کرلیتے ہیں، کیونکہ سماج کی ترقّی کی حرکیات معاشی ترقّی سے مربوط ہے۔ کسی بھی ملک میں معاشی ترقّی کے حصول کے لئے قدرتی وسائل کی فراوانی جیسے زرخیز زمینیں، دریا، جھیلیں،آبی ذخائر، سمندر، معدنیات اور افرادی قوّت کی فنّی مہارتیں اور فراوانی کوئی حتمی اور بنیادی شرط نہیں ہے۔ قدرتی وسائل اور افرادی قوّت ترقّی کے حصول میں مدد کر سکتے ہیں لیکن معاشی ترقی کی حتمی ضمانت نہیں ہیں۔ قدرتی وسائل کی فراوانی سے محروم ممالک جاپان، سائوتھ کوریا، اٹلی، ہانگ کانگ، سنگاپور، تائیوان، بیلجئیم ، سوئٹزرلینڈ دنیا کے آٹھ بڑے برآمدی ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔
فکری اور شخصی آزادیاں، سماجی و سیاسی آزایوں کو نمو دیتی ہیں اور یہ سب آزادیاں مل کر کسی بھی سماج میں معاشی ترقّی کے حصول کے لئے راستہ فراہم کرتی ہیں۔وہ ریاستیں جو اپنے شہریوں کو فکری و شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی سہولیات بھی فراہم کرتی ہیں، سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ترقّی یافتہ ہوتی ہیں۔
فری مارکیٹ اکانومی کا کلچر بھی صرف آزاد معاشروں میں میں ہی پنپ سکا ہے۔ جن ریاستوں میں سوشل ڈیموکریسی اور فکری و شخصی آزادی کا چلن نہیں ہے، ان ممالک میں فری مارکیٹ اکانومی، بیوروکریسی، اقتدار، حکومتی کنٹرول، ریاستی قوانین ، جاگیر دار اور سرمایہ دار اور صنعتکار اشرافیہ کے ہاتھوں سرمایہ دارانہ راج میں تبدیل ہوجاتی ہے، اورعوام غربت، جہالت اور پسماندگی کی چکّی میں پسنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ بہت ہمہ گیر موضوع ہے، ہم اپنی بات اس فکری سوال پر ختم کرتے ہیں کہ کیا پاکستان میں کبھی معاشی ترقّی کے حصول کے لئے ، سماجی و سیاسی ترقّی اور شخصی و فکری آزادیوں کی اہمیت ، ریاست کی ترجیحات میں شامل ہو سکے گی؟؟؟؟
♦