سلام صابر
جنرل رازق اچکزئی کے قتل کے وقتی مضمرات کا معلوم نہیں لیکن آنے والے وقتوں میں افغانستان کے جنوب غرب کے علاقوں کا امن ممکنہ طور پر مزید تہہ و بالا ہوگا، جس طرح اورزگان کے مطیع اللہ خان ایک مشکوک حملے میں جب کابل میں مارا گیا تب سے لیکر آج تک اورزگان کے شہریوں کو امن کی رات نصیب نہ ہوئی۔
روس کے انخلاء کے بعد جب افغان قبائلی و نسلی جنگجو مجاہدین و دیگر ناموں سے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوئے تو پورے افغانستان کو جہنم بنا کے رکھ دیا گیا، اور اسی درمیان میں کندھار سے طالبان کا ظہور ہوا، گوکہ طالبان کے نیم اقتدار سے لیکر اختتام تک انھیں مختلف علاقوں میں مختلف قبائلی و نسلی گروپوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا۔
امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد کے چند سالوں یا اس سے قبل کے نزدیکی عشروں میں افغانستان کو ایک ملک یا مستحکم ریاست کے بجائے خانہ بدوشوں کا ٹھکانہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ وطن دوستی کی نعمت سے محروم افغانستان کی اکثریتی قیادت کسی نہ کسی طرح کسی قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئی تھی۔
ہم حاجی رازق کے قتل کے حوالے سے چند اہم باتوں پر غور کرتے ہیں۔ گورنر کندھار کا خالہ زاد گلبدین دو ہفتے قبل گورنر کی سیکیورٹی میں شامل ہوتا ہے، اور جس دن انتخابات کے حوالے سے نیٹو کے ساتھ مشترکہ اجلاس ہوتا ہے، اسی دن تمام اہلکاروں سے اسلحہ واپس لیا جاتا ہے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد نیٹو کمان ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور صوبائی قیادت اسے رخصت کرنے کیلئے بھی اسی طرف جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک فائرنگ شروع ہوجاتا ہے۔ فائرنگ سے گورنر زخمی، اور جنرل اچکزئی و مومن حسن خیل اور حاجی سیلم جان مارے جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد طالبان ترجمان قاری یوسف ٹویئٹر پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ ابو دجانہ ( گلبدین) ہمارا کارکن تھا، جس نے گورنر ہاوس میں فائرنگ کرکے معروف جنرل کو قتل کردیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی گلبدین ( ابودجانہ ) نے فائرنگ کرکے حاجی رازق سمیت دیگر کو قتل کیا تو میڈیکل رپورٹ کے مطابق جنرل اچکزئی کے جسم میں ’’اے کے فورٹی سیون ‘‘ کی گولیاں نہیں تھیں، اور اطلاعات کے مطابق گورنر کے اسکواڈ میں تمام سپاہیوں کے پاس اے کے فورٹی سیوں گن تھے۔ اور دوسرا سوال کہ اس طرح کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیکیورٹی کے پیش نظر سپاہیوں سے تمام اسلحہ جمع کیا گیا، تو گلبدین نے کیسے اور کس چیز سے فائرنگ کی؟
خود جنرل رازق کا اپنے قتل کی سازش کی پیشن گوئی:۔
تین مئی2015 کو کندھار میں عبداللہ عبداللہ و دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی میں ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اچکزئی نے کہا تھا کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ خود ان کی اپنی مرکزی سرکار میں شامل چند لوگ طالبان کے ساتھ مل کر عطا نور، ظاہر قدیر سمیت مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ حاجی رازق نے 2015 میں اپنی تقریر میں طالبان کے رہنما ذاکر قیوم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ مل کر افغانستان امن کونسل کے ممبر ہمارے سروں کا سودا کررہے ہیں۔
ذاکر قیوم جس پر خود طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع موسیٰ قلعہ میں زمین کے تنازعے پر قبائلی جنگ کو ہوا دینے کا الزام لگا کر کوئٹہ میں اس کے گھر پر افغان طالبان نے دو مرتبہ چھاپہ مارکر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اور آخر اپنی صفائی دے کر معافی مانگنے کے بعد آجکل گوشہ نشین ہوچکے ہیں ۔
کیا واقعی طالبان نے جنرل رازق کو قتل کیا؟:۔
ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان کی مرکزی قیادت کافی حد تک پشتونوں کے اسحاق زئی قبیلے کے ہاتھ میں چلی گئی ہے، اور اسحاق زئی قبیلے کا شمار افغانستان کے انتہائی ناخواندہ قبائل میں سے ایک میں ہوتا ہے، اور بعض علاقوں میں بالخصوص جنوبی افغانستان میں ان پر الزام ہے کہ وہ اپنا قبائلی بدلہ لینے کیلئے اسلامی امارات و جہاد کا سہارا لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ آجکل طالبان بے ساختگی کا بھی شکار ہوچکے ہیں اوراکثر لوگ انھیں ایک بہتر اسلامی نظام حکومت کی خاطر جد وجہد کرنے والوں سے زیادہ ایک ’’ سیکیورٹی کمپنی‘‘ ہی سمجھتے ہیں، جو مخصوص بیرونی مفادات کی تکمیل کی خاطر اندھا دھند طریقے سے کام کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک قدرے مختلف نقطے کی جانب بھی توجہ دینا ہوگا کہ اگر کندھار گورنر ہاؤس میں ہونے والے فائرنگ کی منصوبہ بندی طالبان نے کی تھی، تو جنرل رازق کے قتل سے چار گھنٹے قبل پاکستان آرمی کے زیر اہتمام سوشل میڈیا کے ویب سائٹ فیس بک کے صفحے میں کندھار میں ایک اعلیٰ شخص کی قتل کی جانب اشارہ کیا گیا (گوکہ صفحے میں بی ایل اے کمانڈر لکھا گیا تھا)۔
ڈیورنڈلائن اور جنرل اچکزئی:۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر چھوٹے بڑے تنازعات کے علاوہ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ قدرے بڑا تنازعہ ہے، پاکستان نے طالبان کے وقت اس متنازعہ سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کروانے کے کافی دباؤ ڈالا لیکن ملاعمر نے صاف انداز میں کہا کہ وہ اپنی ماں ( افغانستان) کا سودا نہیں کرسکتا۔
لیکن حالیہ عرصے میں جب پاکستان نے اس متنازعہ لائن پر خار دار تار لگانے کا کام شروع کیا، تو افغان حکومت کی جانب سے کوئی خاص مذمت و مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی، لیکن جب کندھار صوبے سے منسلک سرحد پر پاکستان نے باڑ لگانے کا کام شروع کیا تو جنرل اچکزئی نے باقاعدہ طور پر کام کو بند کرنے کیلئے فورسز کو روانہ کیا۔
گوکہ کندھار میں موجود آرمی کور کمانڈر کو کابل سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی صورت جنرل رازق کی مدد نہ کرے۔ متنازعہ سرحد پر کام کے حوالے سے جب گورنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں نیٹو کمانڈر نے بات کرنے کی کوشش کی تو جنرل اچکزئی نے موقف اختیار کیا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے اور اسی پہ اطلاع کے مطابق کچھ تلخ کلامی بھی ہوا تھا۔
مرکزی حکومت کے ساتھ اختلافات کے علاوہ حال ہی میں رازق اچکزئی کے اپنے سب سے بڑے حمایتی حامد کرزئی سے بھی تعلقات کچھ کچھ کشیدہ تھے۔
حامد کرزئی سے کشیدہ تعلقات کی بنیادی وجہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے، جس پر بطور صدر کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کیا تھا اور اشرف غنی نے صدر منتخب ہونے کے بعد معاہدے پر پہلی ہی فرصت میں دستخط کرلیا تھا۔ حال ہی میں جب طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا تو بعض حلقوں کی جانب سے معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا۔
دیگر کے ساتھ ساتھ جنرل اچکزئی نے حامد کرزئی کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کیلئے سب سے زیادہ اہمیت اپنا رکھتا ہے نہ کہ کوئی شخص۔
جنرل اچکزئی کے قتل کے اثرات:۔
طالبان کی جائے پیدائش میں امن و امان کی صورتحال افغانستان کے دیگر جنوبی صوبوں کی نسبت قدرے بہتر رہا ہے، بقول ایک سرکردہ طالبان رہنما کے ہمارا سب سے بڑا افرادی قوت کندھار میں تھا اور سب سے زیادہ جانی نقصان بھی کندھار میں رازق اچکزئی کی فورسز سے مقابلہ کرتے ہوئے اٹھایا۔
گوکہ جنرل اچکزئی پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام بھی لگا لیکن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کسی خالی ہاتھ انسان کو کبھی بھی نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیا، لیکن جو شدت پسند فورسز پر حملہ کرتے ہیں تو ان کا مقابلہ کرتے ہوئے لازماً جانی نقصان ہوتا ہے۔
جنرل اچکزئی کے قتل سے قبل اس کے دست راست کماندان جانان کو ایک مقناطیسی حملے میں نشانہ بنایا گیا، اور بعض حلقوں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ دشمن جنرل اچکزئی کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔
قطع نظر اس بات کہ ایک درجن سے زائد حملوں میں محفوظ رہنے کے بعد بالآخر مارا تو گیا لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کندھار کا امن بھی آنے والے دنوں میں داؤ پر لگ جائے گا۔
اس کے علاوہ کندھار جنوبی پشتون صوبوں کا تجارتی مرکز بھی ہے اور بہت سارے افغان تاجر جو پہلے کراچی، کوئٹہ اور دیگر ممالک میں کاروبار کرتے تھے، انہوں نے اپنا کاروبار کندھار منتقل کردیا، اور حالیہ عرصے میں کندھار شہر میں بڑی تعداد میں بڑے بڑے مارکیٹوں کی تعمیراور سڑکوں پر کار گاڑیوں کا مسلسل اضافہ وہاں تجارتی سرگرمیوں کی نشانی ہے، لیکن مستقبل قریب میں اگر امن امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہوئی تو لازماً تجارتی سرگرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔
اور جب امن و امان کی صورت حال خراب ہوگا تو لازماً اس کے اثرات صرف کندھار تک محدود نہیں ہونگے، بلکہ کوئٹہ، پشاور و کراچی میں اس کے اثرات خطرناک حدتک پڑیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ