موجودہ حکومت کی حا لیہ میڈیاسنسرشپ پالیسی نے میڈیاکے حوالے سے پھر تاریخ کو دھرایا، ملکی تاریخ کامطالعہ کیاجاے توحکومت اور صحافیوں کے درمیان تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے ہیں جسکی بنیادی و جہ آزادی اظہاررائے ہے۔ یہی و جہ ہے کہ بہت سے صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بہت سے تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں سے د وچار ہوئے۔جو بچ گئے ان کا ریاستی معاشی استحصال ہوا ،حالیہ سنسر شپ کا تعلق بھی صحافیوں کو مالی طور پر کچلنے سے ہے۔
حکومت نے میڈیا ہاؤسز کے کمرشلز اشتہارات پر پابندی عائدکر دی ہے جس کے بعد اخباری مالکان نے اخبارات کے صفحات کوکم کر کے سٹاف کی ڈاؤن سائزنگ شروع کر دی ہے،جس سے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو جائے گی اس ا ستحصال پر ورکر صحافی تو سراپا ا حتجاج ہیں مگر اخباری مالکان جی حضوری کی پالیسی اپنانے کے لیے پر تول رہے ہیں ،گزشتہ د نوں صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم، پی ایف یو جے ، نے پارلیمنٹ کے سامنے ا حتجاج کیااور پارلیمان سے مطالبہ کیا کے وہ صحافیوں کے حقوق اور آ زادی اظہا ررائے کے تحفظ کے لیے پارلیمان میں آواز بلند کریں اور ریاستی اداروں کی طرف سے صحافیوں پر لگنے والے قد غن کی روک تھام کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔
مگر صحافتی تنظیم کی طرف سے کئے جانے والے احتجاج کو وہ پذیر ائی نہیں مل سکی جو ملنی چاہے تھی جس کی بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کا دوھرا معیار ہے بدقسمتی سے پارلیمان میں بیٹھنے والوں میں بہت کم تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو آزادی اظہار راے پر یقین رکھتے ہیں ورنہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو آزادی اظہار راے کی اہمیت میں قصیدے لکھتے اور بولتے ہیں مگر جونہی حکومتی بنچوں پر بیٹھتے ہیں انھیں وہ آوازیں تکلیف دہ محسوس ھوتی ہیں ۔
عمران خان کی ہی مثال لے لیں جب تک اپوزیشن میں رہے ٓزادی اظہار خیال اور رائے سے مستفید ہوتے رہے اور جو نہی حکومت میں آئے۔میڈیا سنسر شپ پالیسی سامنے لے آئے ،دوسری جانب افسوسناک امرہے کہ حالیہ سنسرشپ پالیسی پر میڈیا کی بھی ایک بڑی تعداد خاموش ہے نیوز چینلز کی اکثریت نے اس خبر کو نشر ہی نہیں کیا اور نہ ہی پی ایف یو جے کی طرف سے ہونے والے ا حتجاج کو وہ کوریج نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی جس سے یہ ثابت کرنا آسان ہے کہ کس طرح ریاستی ادارے میڈیا کو کنٹرول کر رہے ہیں ، مگر اس صورتحال میں بھی میڈیا مالکان ریاستی اداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔
دوسری طرف صحافی دوہرے عذ اب کا شکار ہیں مالکان کی جانب سے بے روزگاری کی لٹکتی تلواراور ریاستی اداروں کی طرف سے زبان بندی کامطالبہ ،ایک سچے صحافی کے لیے یہ ایک مشکل کام ہے ریاستی اداروں کامطالبہ ہے ر پورٹنگ اس حد تک کی جائے جتنی کی اجازت ریاستی ادار ے د یتے ہیں ۔موجودہ حکومت میڈیاکوچائینہ اورسعودی ماڈل پر لاناچاہ رہی ان ممالک میں ریاست اورریاستی اداروں پر تنعقیدکرنے پر قدغن ہے اور اسکی خلاف عرضی کرنے والوں کا انجام جمال خشیگی جیسا ہوتا ہے ،پاکستان میں بھی اسی طرح کی سنسر شپ لانے کوشش کی جا رہی ہے لگتا ہے آنے والاوقت میڈیا کے لیے مزید مشکل ہے اخبارات کے علاوہ آن لائن صحافت کرنے والوں کوسائبر کرائم بل کاسامنا کرناپڑ رہاہے جبکہ الیکٹرونک میڈیا کے لیے پیمرا کی تلوار لٹک رہی ہے ۔
ریاستی اداروں کے بیانیے کی مخالفت کرنے والے ٹی وی چینلز آے دن پابندیوں کی نذرہوجاتے ہیں پاکستان میں کوئی لگ بھگ ۱125 چینلز چل رہے ہیں جن میں سے فریکونسی کوئی 75 چینلز کے پاس ہے کیبلز آپریٹرز ہمیشہ وہ چینلز پہلے نمبرز پر چلاتے ہیں جن کو عوامی مقبولیت حاصل ہوتی ہے مگر اگر وہ چینلز ریاستی اداروں کی گڈ بک میں نہ ہو تو انھیں آخری نمبرزپرچلانے کے لیے پیمرا کی جانب سے کیبلز آپریٹرز پر د باؤ ڈالا جاتا ہے اور اگرکیبل آپریٹرزاس دباو کو نہ مانےءں توپھر پراےؤئیٹ نمبرز کا کالز کاسلسہ شروع ہوجاتا ہے جس کااظہاراکثر کیبلزآپریٹرزمیڈیا کے سامنے کر چکے ہیں۔
بے شمار قربانیوں اور جدوجہد کے بعدحاصل کی گئی ٓزادی اظہار رائے اس وقت خطرے سے دو چار ہے ریاست روز باروز چائینہ طرز کا ماڈل اپنانے کے لیے کوشاں ہے پہلے سول سوسائٹی اور این جی اوز کے کردار کو محدود کر دیا گیا ہے بلکے یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کے ختم کر دیا گیاہے اور اب صحافیوں پر پابندیاں ضیا دور کی یاددلا رہی ہیں ایسی صورت میں پی ایف یو جے اور دیگر صحافتی تنعظیموں کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ا ور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں کو نوکری نہیں صحافت کوبچانا ہے ۔
♠