آخری لڑکی

مسعود قمر


اس سال امن کا نوبل انعام عراق کی ایک یزیدی خاتون نادیہ مراد اور جنسی تشدد اور ریپ کے خلاف آوز بلند کرنے والے افریکی ملک کانگو کے گائناکالوجسٹ ڈینس مکوبگے کو دیا ہے۔

نادیہ کا تعلق یزدی برادری سے ہے، وہ 1993 میں شمالی عراق میں کوہ سنجار کے علاقے کے ایک گاوُں میں پیدا ہوئی ۔

جب دولت اسلامیہ کے جنگجووُں نے اس کے گاوُں پہ چڑھائی کی تو گاوُں کے پانچ ہزار مردوں کو قتل کر دیا جس میں نادیہ کے سامنے اس کے چھ بھائیوں اور ماں کو بھی قتل کر دیا اور گاوُں کی باقی لڑکیوں اور عورتوں کو کنیزیں بنا کر دولت اسلامیہ کی جنگجووُں میں تقسیم کر دیا جو ان کے ساتھ دن میں کئی کئی بار جنسی تشدد کرتے رہے۔

دولت اسلامیہ کے اصول کے مطابق پکڑی جانے والی عورتیں مال غنیمت ہوتی ہیں اور اگر جو بھاگنے کی کوشش کرتیں تو اسے کمرے میں بند کر کے ان پہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ان کےساتھ گینگ ریپ کیا جاتا ۔ نادیہ بھی کئی بار گینگ رہپ کا شکار ہوئی ہے ۔۔ جنگجووُں کا جب دل بھر جاتا تو وہ انہیں بیچ دیتے تھے ۔۔

نادیہ آخر 2014میں کسی طریقے سے اس قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔۔ جب وہ موصل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئی تو بی بی سی کی نامہ نگار نفیسہ کہن ورد نے اس سے ملاقات کی اور نادیہ کو کہا 

میں تمہارا انٹرویو اس طرح لوں گی کہ تمہارا چہرہ نظر نہیں آئے گا تو نادیہ نے کہا
نہیں دنیا کو دیکھنے دو کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔

نادیہ نے نومبر2014 میں دولت اسلامیہ کی قید سے رہائی کے بعد دنیا کے سامنے دولت اسلامیہ کی جانب سے یزیدی مذہب کی عورتوں سے روا رکھے جانے والے سلوک سے پردہ اٹھایا۔۔ نادیہ نے ان حالات کا ذکر اپنی کتاب آخری لڑکیمیں بھی کیا ہے۔ 

میں نے پچھلے دنوں اپنی دوست فطرت سوہان کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ فطرت اپنے صحافی فرائض انجام دیتے ہوئے شام میں امریکا اور اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے شدید زخمی ہو گئی ہیں۔ 

فطرت جہاں صحافی ہے وہاں وہ سماجی بھلائی کے کام کرنے والی ایک بہت سرگرم کارکن بھی ہیں ۔

فطرت ایک ایسی این جی او میں کام کرتی ہے جنہوں نے ان یزدی عورتوں کو دولت اسلامیہ کے درندے جنگجووُں کی قید سے رہائی کے لیے بہت کام کیا ہے ۔ بعض دفعہ یہ چندہ اکھٹا کر کے ان جنگجووُں کو پیسے دے کر عورتوں کو قید سے رہائی دلاتے تھے ۔

فطرت سوہان، نادیہ مراد سے بہت دفعہ مل چکی ہے ، فطرت مجھے اکثر نادیہ کی باتیں بتاتی رہی ہیں۔

اب جب نادیہ مراد کو امن کے نوبل انعام کے لیے منتخب کیا گیا تو جہاں میں بہت خوش ہوں وہاں سوہاں فطرت تو بہت زیادہ خوش ہے ۔۔۔ یہ انعام در اصل ایک جیت ہے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اور عورت کے ساتھ جنسی تشدد کے خلاف ۔

نادیہ کو جب انعام کا اعلان ہوا تو فطرت سوہان نے اسی دن انگریزی میں نادیہ مراد کے لیے نظم واپسیلکھی ۔۔ میں فطرت کا مشکور ہوں کہ اس نے میرے اسرار پر اس نظم کا اردو میں ترجمہ کر کے مجھے بھیجی ۔

فطرت کی نظم نادیہ مراد کے لیے ملاحظہ کریں۔

واپسی

چوبیس سال کی عمر میں تم گھر لوٹیں

تو تمھاری الماری نشانیوں سےخالی تھی

تمھارے ابا ، اماں اور کئی بھائیوں کی ہڈیاں
لاوارث پڑی تھیں

اسی زمین پر
جہاں تمھاری دہشت زدہ آ نکھوں نے
اپنا پاؤں کھو دیا تھا

تم نے درندوں کے ہاتھوں پامالی کی بجائے 
موت کو ترجیح دی

اور
اپنے رنج و الم کو پیغام بنانے والوں س
نیرودا کی طرح کہا کہ آؤ دیکھو

تم ایک شکستہ معجزے کی طرح دوبارہ لوٹی ہو

کہ خاموش کر دیئے گئے 
گاؤں کے زخموں کا مداوا ہو سکے

یہی بہت ہے۔

سنا ہے کہ تم دوبارہ آ رہی ہو 
شاید وہی شیطانتمھارا مددگار ہے
جسے تم سب پوجتے ہو

تمھاری غمزدہ ٹانگیں
تمھارے آنسوؤں کا بوجھ اسی لیے اٹھاتی ہیں

کہ کافر ہڈیاں پامال دیوتاؤں کے ملبے کے بیچوں بیچ چل سکیں۔
سوہان فطرت

Comments are closed.