چین کے تعاون سے شروع کیا گیا سی پیک کا منصوبہ پہلے دن سے ہی متنازعہ ہے جس کی بنیادی وجہ اس کے ڈیزائن اورمعاہدے کی شفافیت ہے۔ نواز دور میں بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سیاسی جماعتوں نے حکومت سے بارہا مطالبہ کیا تھا کہ اس منصوبے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں زیر بحث لائی جائیں جس سے نواز حکومت ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔
نواز حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر اس کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں کر تی رہی ۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اس سلسلے میں متضاد بیانات دیتے رہے اور اے این پی کے بار بار اصرار پر وعدہ کرتے رہے کہ وہ اس کی تفصیلات سامنے لائیں گے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔
انتخابات کے بعد نئی حکومت نے اس منصوبے پر گہرے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک کے تحت زيادہ تر منصوبے چين کے بہت زيادہ مفاد ميں ہيں۔ماہر معاشیات عاطف میاں نے اس منصوبے کی شفافیت پر سوالات اٹھائے تھے ۔ماہرین کے مطابق عاطف میاں کا اصل جرم یہی ہے کہ انہوں نے سی پیک کی شفافیت پر سوال اٹھائے تھے اور اسی لیے انہیں حکومت نے متعلقہ اداروں کے دباو پر فارغ کر دیا ہے۔ عاطف میاں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ اس منصوبے سے چین اور پاکستان دونوں فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ معاہدہ باقاعدہ معاشی اصول و ضوابط کے مطابق ہو، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ملک میں معاشی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب تک مقامی پیداوار میں اضافہ نہ ہو۔کوئی دوسرا ملک آپ کا انفراسٹرکچر ڈویلپ کرے یہ خام خیالی ہے۔ سی پیک کے لیے چین کا قرضہ نہ صرف بیرونی قرضے میں 62سے 92 بلین ڈالر کا اضافہ کرے گا جو کہ پاکستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
وزير برائے منصوبہ بندی خسرو بختيار نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے حال ہی ميں بات چيت کرتے ہوئے بتايا تھا کہ حکومت کوئی ايسا ماڈل تيار کرنے کی کوشش ميں ہے، جس کی مدد سے پورے کا پورا خطرہ صرف پاکستان ہی کو مول نہ لينا پڑے۔
بختيار 8.2 بلين ڈالر ماليت کے اس منصوبےکے بارے ميں بات کر رہے تھے، جس کے تحت کراچی سے پشاور تک ريلوے ٹريک بچھايا جانا ہے۔ يہ چين کے ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ ( بی آر آئی ) کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ تاہم اخراجات اور قرض کے بوجھ تلے دب جانے کے خوف سے پاکستان نئی شاہراہ ريشم کے ايسے متعدد منصوبوں کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہے۔
خطے ميں چينی سرمايہ کاری کے حوالے سے تحفظات بڑھتے جا رہے ہيں۔ پاکستان ہی نہيں بلکہ سری لنکا، ملائيشيا اور مالديپ ميں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتيں بھی سابقہ حکومتوں کی جانب سے طے کردہ معاہدوں کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہيں۔ پاکستان ميں وزير اعظم عمران خان کی حکومت ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے ليے سرگرم ہے اور يہی وجہ ہے کہ نئی شاہراہ ريشم کے متعدد منصوبوں پر ان دنوں سوالات اٹھائے جا رہے ہيں۔
پاکستانی اہلکار بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت طے کردہ تمام منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہيں۔ اسلام آباد حکومت کا موقف ہے کہ معاہدے درست انداز سے طے نہيں کيے گئے اور يوں وہ زيادہ تر چين کے مفاد ميں ہيں۔ پاکستان کے تين سينئر اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ چين صرف ان منصوبوں پر دوبارہ بات چيت کے ليے تيار ہے، جن پر اب تک کام شروع نہيں ہوا۔
اس بارے ميں جب نيوز ايجنسی روئٹرز کی جانب سے چينی وزارت خارجہ کو چند سوالات بھيجے گئے، تو جواب ميں کہا گيا کہ دونوں فريق ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ کے منصوبوں کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے سلسلے ميں پر عزم ہيں۔ اسلام آباد حکومت نے بھی يہ واضح کيا ہے کہ وہ چينی سرمايہ کاری سے شروع کيے جانے والے منصوبوں کی تکميل کے سلسلے ميں پر عزم ہے تاہم ان پر اٹھنے والے اخراجات جيسے امور پر نظر ثانی کی طلب گار ہے۔
بیجنگ نے پاکستان چين اقتصادی راہداری يا سی پيک کی منصوبے کے تحت ساٹھ بلين ڈالر کی سرمايہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے کئی علاقوں ميں بنيادی ڈھانچوں کو بہت بہتر بنایا جا سکے گا اور یہ بات کئی علاقوں میں مقامی آباديوں کے ليے روزگار کے بہتر مواقع کا باعث بنے گی۔
پاکستان میں چينی سفير ياؤ جنگ نے روئٹرز کو بتايا کہ بیجنگ حکومت اسلام آباد کی جانب سے پيش کردہ تجاويز پر نظر ثانی کے ليے تيار ہے اور اس ضمن ميں ايک روڈ ميپ تيار کيے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ صرف ان منصوبوں پر ہی کام ہو گا، جن ميں پاکستان کی رضامندی شامل ہو گی۔
DW/News Desk
♦