خالد تھتھال۔ناروے
انجم چوہدری کو 19 اکتوبر 2018ء قید سے رہائی مل گئی۔ اسلام کے اس پاکستانی نژاد بطل جلیل کو دولت اسلامیہ فی العراق و الشام ( دعش) کی کھلے عام حمایت اور معاونت کی وجہ سے چھ ستمبر 2016ء کو ساڑھے پانچ سال کی قید سنائی گئی تھی۔ آدھی قید جیل میں گزارنے کے بعد وہ باقی کی آدھی قید جیل سے باہر گزاریں گے ۔ اس دوران پولیس ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے رہی گی۔
انجم چوہدری ہمیشہ اتنے مذہبی نہ تھے۔ وہ جوانی کے آغاز میں شراب نوشی، منشیات کے استعمال اور پارٹیاں کرنے کے شوقین تھے۔ ایک بدنام اور تاریک ماضی سے اسلام کی طرف لوٹنے کے سلسلے میں انجم اکیلے نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک نام ناروے میں مقیم عرفان قدیر بھٹی بھی ہیں۔ عرفان 1977ء میں پیدا ہوئے۔ مجرمامہ کاروائیوں کا آغاز 13 سال کی عمر میں ینگ گن نامی گینگ میں شمولیت سے کر دیا۔ 15 سال کی عمر میں ایک سٹور کے مالک کو مار گرانے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ 20 سال کی عمر میں پولیس کو دھمکیاں دینے اور تشدد کرنے کی وجہ سے عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک سال بعد عرفان بھٹی کو تارپیڈو کے طور پر ایک شخص کو گولی مارنے پر ایک بار پھر عدالت کا سامنا ہوا۔ تارپیڈو سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی نے آپ سے قرض لیا اور واپس دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے تو آپ اپنی رقم کے حصول کیلئے ایک ایسے شخص سے رابطہ کرتے ہیں جو آپ کی بپتا سننے کے بعد آپ کے پیسے واپس دلانے کی ہامی بھرتا ہے لیکن اس کے عوض اسے بھی ان پیسوں میں سے ایک مخصوص رقم ادا کی جائے گی۔ ایسا آدمی ناروے کے مجرموں کے سرکل میں تارپیڈو کہا جاتا ہے۔
مجرمانہ کاروائیوں میں ملوث گینگ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ عرفان بھٹی سے ڈرتے تھے۔ ان کا اپنا کہنا تھا کہ وہ ناروے کے بدترین مجرموں میں سے ایک تھے۔ یہ تمام معلومات اوسلو کے اخبار داگ بلادت کے 26 آگست 2002 کے ایڈین میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اخبار آن لائن ہے۔ چند سالوں بعد عرفان بھٹی کو دین کی روشنی نصیب ہوئی۔ اور ان کا چہرہ سنت رسول سے یوں مزّین ہوا کہ انہیں دیکھ کر شیونگ بلیڈ بیچنے والے بھی شرمندہ ہو جائیں۔
چھبیس26 اگست 2002 کی اشاعت میں عرفان بھٹی کا بیان موجود ہے ” میری زندگی اسلام کے لیے وقف ہے اور مجھے نارویجن اقدار سے نفرت ہے“۔ ان کی تنظیم اُمّت رسول ( پرافٹ اُمّہ) کے اراکین غیر ممالک میں مقیم نارویجنوں کو قتل کرنے جیسے بیان دینے سے بھی نہیں کتراتے تھے۔
عرفان بھٹی کفار سے جہاد کرنے کیلئے افغانستان روانہ ہوئے ۔ وزیرستان سے کلاشنکوف ہاتھ میں پکڑے ہوئی والی تصویر بھی پبلک ہوئی۔ اور پھر کچھ عرصہ ان کی کوئی خبر نہ ملی۔ اور اہل خانہ کو خدشہ ہوا کہ خدا نخواستہ عرفان کہیں شہید تو نہیں ہو گئے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ عرفان بھٹی ایف آئی اے کی حراست میں ہے۔ اور جونہی خبر ان کی تنظیم کے ممبران کو ہوئی تو انہوں نے مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ نارویجن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہری کو قید سے رہا کرا کے واپس لائیں ۔ یعنی وہ ریاست جس کے باشندوں کو وہ واجب القتل سمجھتے تھے۔ اب وہی ریاست انہیں چھڑائے۔ کچھ عرصہ بعد عرفان بھٹی واپس آ گئے۔ لیکن پتہ نہیں چل سکا کہ اس میں ناروے کی حکومت کا کتنا ہاتھ ہے اور جماعت اسلامی کے فرید پراچہ صاحب کی کتنی محنت شامل ہے۔
انجم چوہدری نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔ لیکن جب صراط مستقیم پر چلنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تو ملازمت سمیت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دین کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ شام سے تعلق رکھنے والے سلفی امام عمر بکری محمد کے ساتھ مل کر المہاجرون نامی تنظیم بنائی۔ المہاجرون پر دہشت گردی کی حمایت اور یہود دشمنی کے کھلم کھلا اظہار کی وجہ سے پابندی عائد ہو گئی۔ عمر بکری محمد لبنان گئے اور وہاں دھر لیے گئے۔ انجم نے الغرباء نامی تنظیم بنائی لیکن جلد ہی اس کی جگہ اسلام فار یوکے نام سے تنظیم کھڑی کی اور بہت کم عرصے میں اس تنطیم نے برطانیہ بھر میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
انجم چوہدری نے ایک شریعت مارچ کے تحت برک لین کے علاقے میں دوکانداروں اور ریستوران چلانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ شراب کی فروخت بند کر دیں۔ وگرنہ انہیں چالیس کوڑوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ انجم چوہدری نے بعد میں بتایا کہ یہ بہانہ ناقابل قبول ہے کہ ہم ایک غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہیں لہذا ہم یہ کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر آج برطانیہ میں شریعت کا نفاذ نہیں تو ایک وقت میں نافذ ہو گا۔ لہذا اس علاقے میں پب، جوآ خانے یا نیشنل لاٹری سکیم نہیں رہے گی۔ ہر عورت کو مناسب لباس، نقاب اوڑھنا ہو گا۔ اور جسم فروشی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ 2050ء میں برطانیہ مسلمان اکثریتی ملک ہو گا۔ جس سے نتیجہ جمہوریت کا خاتمے اور اللہ کی اطاعت ہو گی۔ جونہی ہمیں اقتدار ملا تو جمہوریت کا خاتمہ کر کے شریعت نافذ کر دیں گے۔ اور یہی ہم لوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔
انجم چوہدری چند سال پہلے چار برطانوی شہروں کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں جسے وہ اسلامی شریعت کے تحت چلائیں گے۔ اور اس نظام کے تحت زنا کے مرتکب ہونے والوں کو سنگسار کیا جائے گا اور شراب پینے والوں کو چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔ انجم چوہدری نے رات کے وقت شریعت پٹرولنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا جس میں ان کے ساتھی رات کے وقت گورے لڑکوں اور لڑکیوں کو ”نامناسب لباس“ شرابی نوشی وغیرہ سے روکتے تھے۔ لیکن پولیس نے مداخلت کر کے ان کے اس سلسلے کو روک دیا۔
ایک برطانوی فوجی کی لاش برطانیہ لائی گی جس کی پریڈ کو انہوں نے ایک وحشی قاتل کے لیے کی گئی گھٹیا پریڈ کا نام دیا۔ چینل فور کی خفیہ کیمرے سے کی گئی ریکارڈنگ میں انجم چوہدری نے ٹوئن ٹاور کو گرانے والوں کو ”وہ انھیں عظیم الشان“ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا۔ انجم چوہدری کو کوئی کام کرنے نہ کرنے وجہ سے سوشل سیکورٹی سے سالانہ پچیس ہزار پاؤنڈ سالانہ ملتے تھے جسے وہ کفار سے حاصل کیا گیا جزیہ کہتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بھی کام کرنے کی بجائے سوشل سیکورٹی پر جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
شام و عراق میں اسلامی خلافت کے قیام سے انجم چوہدری کو ایک نیا میدان نظر آیا ۔ انہوں نے دولت اسلامیہ کے ابوبکر البغدادی کو اپنا خلیفہ تسلیم کرنے کے علاوہ اپنے ساتھیوں کو بھی خلیفہ کی اطاعت کا مشورہ دیا۔
تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود انجم چوہدری کئی سال تک گرفتار نہ ہو پائے کیونکہ ایک تجربہ کار وکیل ہونے کے ناطے وہ قانون کی باریکیوں سے واقف تھے۔ اور یوں ہر بار وہ قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے تھے۔ لیکن لی رگبی نامی برطانوی فوجی کے دن دیہاڑے قتل ، اس کے نائجرین نژاد برطانوی قاتل اور لنڈن برج کے حملے جس میں 52 برطانوی شہری مارے گئے، ان واقعات سے اسلام فار یوکے کے ممبران کا تعلق چھپا نہ رہ سکا۔ دعش کا “جہادی جان” جو دعش کے قیدیوں کا گلا تلوار سے کاٹتا تھا، اس کا تعلق بھی انجم چوہدری کی تنظیم سے نکلا۔ دعش کی کھلم کھلا حمایت اور برطانوی شہریوں کو دعش کے زیر تسلط علاقے میں بھیجنے کی مدد کی وجہ سے انجم قانون کی گرفت میں آ گئے۔
چنانچہ جج ہولرائیڈ نے یہ کہہ کر انہیں ساڑھے پانچ سال کی قید کی سزا سنائی کہ انہوں نے ” قانون کے تحت اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار اور مجرمانہ فعل کے درمیان کی لکیر کو عبور کیا ہے“۔
اس مقدمے کی کاروائی پر ریاست کے تقریباََ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ خرچ ہوئے۔ کچھ ایسا ہی حال ناروے میں پرافٹ اُمّہ کے پاکستانی نژاد عبیدا اللہ کا ہوا جنہوں نے ناریجن نوجوانوں کو شام و عراق میں قائم کی گئی خلافت میں جہاد کے لیے بھیجا گیا۔ جہاں ایک نو مسلم نارویجن گورا جنگ میں مارا گیا۔
یوں تو انجم چوہدری کو رہائی مل چکی ہے لیکن اس کے باوجود ان پر پولیس کی کڑی نظر رہے گی۔ انہیں چند ایک مساجد میں جا کر تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ۔ انٹرنیٹ کے استعمال اور سفر کرنے کی سہولت نہیں ہو گی وغیرہ۔ انجم کی حفاظت کیلئے انہیں ایک نیا مکان مہیا کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے وہ تین لاکھ بیس ہزار پاؤنڈ کی ملکیت کے گھر میں رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق انجم کی حفاظت اور نگرانی پر ایک لاکھ پاؤنڈ سالانہ کا خرچہ آئے گا۔
انجم چوہدری کی رہائی پر کچھ لوگ بہت متفکر نظر آ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ پہلے کی طرح چٹان کی طرح سخت ہیں۔ انھیں ابو حمزہ سے بھی خطرناک انسان قرار دیا جا رہا ہے، جو اس وقت امریکہ میں عمر بھر کیلئے قید ہیں۔
♥