‘چین ایک ایسا ملک بنتا جا رہا جہاں ہمہ وقت آپ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ جہاں آپ ذرا سی غلطی پر سلاخوں کے پیچھے جا سکتے ہیں۔ جہاں سوچ پر بھی پہرہ ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں غیر ملکی صحافیوں کو پسند نہیں کیا جاتا ہے‘۔
یہ چین کے بارے میں بی بی سی کے ایک صحافی کا تجزیہ ہے جس کا احساس انھیں رواں سال چین کے بڑے علاقے سنکیانگ کے دورے کے دوران ہوا۔
اس کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گيا ہے۔ لاکھوں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو کوئی عدالت کوئی وکیل نہیں ملے گا۔ مریضوں کے لیے کوئی دوا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ افراد کیمپ سے مردوں کی حالت میں نکل رہے ہیں‘۔
بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پروگرام میں انسانی حقوق کے اویغور پروجیکٹ کے نوری تاکیل نے بتایا کہ ’‘میری ماں اور بیوی کو کیمپ میں لے جایا گیا۔ انھیں لکڑی کی سخت کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ میری بدنصیب ماں کو روزانہ اس عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری بیوی کا گناہ بس اتنا ہے کہ وہ اویغور مسلمان ہے۔ اس کی وجہ سے، انھیں ایک علیحدہ کیمپ میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں زمین پر سونا پڑتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج وہ زندہ ہے یا نہیں۔ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میری ماں اور بیوی کو چینی حکومت تڑپا تڑپا کر مارے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ انھیں گولی مار دو۔ گولی کے لیے پیسے میں دوں گا‘۔
یہ ان ہزاروں اویغور مسلمانوں میں سے ایک مسلمان عبدالرحمن کی آپ بیتی ہے جو کسی طرح سے جان بچا کر ترکی جانے میں کامیاب ہوئے۔
‘میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے‘
بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں برطانیہ میں مقیم ایک اویغور انور توہتی نے چین کے حالات کے بارے میں کہا: ‘یہ سنہ 1995 کی بات ہے۔ مجھے بلا کر ایک ٹیم بنانے کے لیے کہا گيا۔ پھر وہ ہمیں وہاں لے گئے جہاں لوگوں کو سزا کے طور پر گولی ماری گئی تھی۔ وہاں میں نے ایک جگر اور دو گردے نکالے۔ لیکن اس قیدی کی ابھی موت واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ قیدی کے دانستہ طور پر سینے کے اس حصے پر گولی ماری گئی تھی کہ اس کی جان فوری طور پر نہ نکلے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ‘اس وقت اس کام میں مجھے کچھ غلط کرنے کا احساس نہیں ہوا کیونکہ میں اس معاشرے میں پیدا ہوا تھا جہاں لوگوں کے ذہن میں بہت سی چیزیں ڈال دی گئی تھیں اور میرا بھی یہ خیال تھا کہ ملک کے دشمن کو ختم کرنا ہمارا فرض ہے۔‘
مذکورہ بالا واقعات و تجربات چین کے سنکیانگ صوبے کے متعلق ہیں، جہاں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔
رواں سال اگست میں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے بتایا کہ وہاں تقریباً دس لاکھ لوگ حراست میں ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے جبکہ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
برطانیہ، امریکہ اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی اویغور مسلمانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کی ہے، لیکن چین نے علیحدگی پسند اسلامی گروہوں کا خطرہ کہہ کر انھیں مسترد کر دیا ہے۔
دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں چین کے ماہر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: ‘گذشتہ ایک دہائی میں بین الاقوامی ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک خاص کمیونٹی کو انتہا پسندی کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے اور یہ اپنے آپ میں غلط رویہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ باقی دنیا کی طرح چین میں بھی یہ رجحان ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ‘اویغور مسلمانوں کے متعلق چینی حکومت کی پالیسی میں اس سوچ کی جھلک ملتی ہے۔ خبریں تو یہی کہتی ہیں کہ تقریباً دس لاکھ مسلمانوں کو عقوبت خانوں میں رکھا ہوا ہے جسے چين سرکاری ‘ری ایجوکیشن کیمپ‘ کہتی ہے۔
پروفیسر سوورن سنگھ کا خیال ہے کہ اویغور مسلمانوں کے سامنے اپنی شناخت کا بحران ہے۔ ‘وہ سوچتے ہیں کہ ان کی زبان اور ثقافت کو فروغ نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان کے طور طریقوں کو دبایا جا رہا ہے۔ مشرقی ترکمانستان کی آزادی تحریک ایک علیحدہ مسئلہ ہے جو چین کو ناگوار ہے۔ چین کی حکومت انھیں اقلیت کے طور پر دیکھتی ہے۔ سنکیانگ سرحدی ریاست ہے جو وسطی ایشیائی ممالک سے ملتی ہے‘۔
برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتیں چين کے سامنے اویغور مسلمانوں کے مسائل محتاط انداز میں رکھتی ہیں۔ اور اکثر یہ تنقید کے زمرے میں آتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مغرب کی یہ قوتیں چین کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی ہیں؟
پروفیسر سوورن سنگھ چینی حکومت کے ڈھانچے اور اس کی سرمایہ کاری کی طاقت کو اس کی اہم وجہ سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں: ‘چین جس طرح گذشتہ تین دہائیوں میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرا ہے اس کی وجہ سے اس کے متعلق پوری دنیا کے رویے تبدیلی آئی ہے۔ ایک پارٹی کی حکمرانی چین کو مختلف انداز سے طاقت فراہم کرتی ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کی صلاحیت بہت مضبوط ہے۔ ان تمام وجوہات کے سبب کوئی بھی چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرتا ہے‘۔
آج دنیا میں تقریباً 24 ممالک ہیں جہاں اویغور مسلمان رہتے ہیں، جو چین سے باہر ہونے کے باعث نسبتاً زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
کیا ہندوستان اور دیگر مسلم ممالک کے لوگ کبھی اویغور مسلمانوں کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں؟اس سوال پر پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: ‘انڈیا کو اس کے متعلق بات ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ انڈونیشیا کے بعد انڈیا دوسرا ملک ہے جہاں مسلم آبادی سب سے زیادہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ‘لیکن دوسرے ممالک، جو ہمیشہ اسلام کے نام پر آگے بڑھ کر باتیں کرتے ہیں، چاہے وہ پاکستان، سعودی عرب یا ایران ہو، وہ سب اویغور مسلمانوں کے مسائل پر خاموش رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک کی تنظیم کی طرف سے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا جاتا تو باقی ملکوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟‘۔
BBC
♦