لیاقت علی
روزنامہ ڈان (22 ۔اکتوبر2018) میں بہاد ر یار جنگ اکادمی (کراچی )کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک سیمینار کی رپورٹ شایع ہوئی ہے۔ سیمینار کا موضوع ریاست’ حیدرآبا دکن کا تحریک آزادی میں رول‘ تھا۔سیمینار سے سابق جج ہائی کورٹ ڈاکٹر غوث محمد ،اکادمی کے صدر میر حامد علی اورپروفیسر محمد علی قادری اور صحافی ظفر محی الدین نے خطاب کیا۔ مقررین نے ریاست حیدرآباد کو ’اسلامی تہذیب و ثقافت‘ کا نمونہ قرار دیا اور ریاست کے آخری حکمران نظام عثما ن علی خان کی قیام پاکستان کے حوالے سے خدمات کو سراہا۔
ریاست حیدر آباد کی’ اسلامی خدمات‘ بارے اس قسم کے بلند بانگ اور سطحی دعوی قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگئے تھے۔ حیدر آباددکن سے نقل مکانی کرکے آنے والی مڈل کلاس یہ جھوٹ پھیلانے میں پیش پیش رہی ہے۔ حیدر آبادی اور یوپی و بہار سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور ماہرین تعلیم کے زیر اثر ہمارے تعلیمی نصاب میں بھی اسی قسم کی بے سروپا باتیں پائی جاتی ہیں۔ نظام حیدر آباد بہت فیاض تھے ، وہ قیام پاکستان کے بہت بڑے حامی تھے وغیرہ وغیرہ ۔
سیمینار جس ادارے کے تحت منعقد ہوا وہ حیدر آباد دکن کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت نواب بہادر یار جنگ(1905-1944) کے نام سے منسوب ہے ۔ نواب بہادر یار جنگ کو جناح کا قریبی ساتھی اور ایک دیومالائی ہستی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ نواب کی زندگی کا ایک پہلو جس کا ذکر کرنے سے گریز کیا جاتا ہے وہ ان کا مہدوی فرقے سے تعلق تھا۔ مہدوی فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری تھے جنھوں نے پندرھویں صدی کے اواخر میں امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ کا شمار انجمن مہدویہ کے اہم ارکان میں ہوتا تھا۔ انھوں نے مجلس اتحاد المسلمین بنائی تھی جو حیدرآباد کو نظام کی قیادت میں اسلامی ریاست بنانا چاہتی تھی ۔1930 میں انھوں نے انجمن جاگیردارں قائم کی اور خود اس کے صدر بنے تھے۔
ریاست حیدر آباد کے بانی قمرالدین خان تھے جنھوں نے اٹھارویں کی تیسری دہائی میں دلی کی مغل سرکار سے بغاوت کرکے اپنی ریاست قائم کی تھی۔ ریاست کے سربراہ نظام کہلاتے تھے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے ٹیپو سلطان کی ریاست میسور پر حملہ کیا تو نظام کی قیادت میں ریاست حیدر آباد کی افواج نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ حقیقت بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں چھپائی جاتی ہے۔ ٹیپو کی بہادر اور جاں فروشی کے قصے تو بہت بیان کئے جاتے ہیں لیکن نظام اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ بارے کچھ نہیں کہا جاتا۔ نظام حیدرآبادانگریز سرکار کا ایسا کارندہ تھا جو انگریزوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔
معروف دانشور اور مورخ ولفرڈ کینٹ ول سمتھ کا موقف ہے کہ آخری نظام عثمان علی خان نے حیدرآباد دکن میں عہد جدید میں قرون وسطی کا سیاسی اور سماجی نظام قائم ہوا تھا۔ نظام ریاست حیدر آباد میں پچاس لاکھ ایکٹر اراضی کا مالک تھا جس کی سالانہ آمدن 25 ملین روپے تھی۔ یہ اراضی ریاست کے کل رقبہ کا پانچ فی صد تھی۔ نظام اپنے ذاتی اخراجات کے لئے سرکاری خزانے سے جو 50 لاکھ روپے وصول کرتا تھا وہ اس کے علاوہ تھے ۔ ریاست کے گیارہ سو جاگیرداروں کے پاس تیس فی صد اراضی تھی اور ان کے مزارعوں کی تعدا د چالیس لاکھ تھی۔ ان مزارعوں کی اکثریت ہندووں پر مشتمل تھی ۔ریاست کے بڑے تجارتی، کاروباری اور صنعتی اداروں کے پچاس فی صد حصص کی مالک ریاست حیدر آباد تھی۔
ریاست حیدر آباد میں ایک اسمبلی بھی تھی لیکن اس کی حیثیت محض مشاورتی تھی۔ اس اسمبلی کے نصف ارکان کو نظام نامزد کرتا تھاا ور باقی نصف ارکان کو انتہائی محدود افراد پر مشتمل حلقہ انتخاب منتخب کرتا تھا۔ نظام نے ایک نمایشی قسم کی ایگزیکٹو کونسل بھی تشکیل دے رکھی تھی جو کابینہ کہلاتی تھی۔کابینہ کی اکثریت مسلمان ارکان پر مشتمل تھی اور ان ارکان کا کوئی تعلق ریاست حیدرآباد سے نہیں ہوتا تھا۔ یہ ارکان کابینہ عام طور پر حیدرآباد کی بجائے یوپی۔بہار اور پنجاب سے منتخب کئے جاتے تھے۔
پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں گورنر جنرل ملک غلام محمد ایسے ہی ایک رکن کابینہ حیدر آباد تھے۔ اعلی ٰ بیوروکریسی کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی اور ان کا تعلق دوسرے صوبوں اور علاقوں سے تھا۔ اور تو اور چھوٹے ملازمتوں کے دروازے بھی مقامی آبادی جس کی اکثریت ہندووں پر مشتمل تھی ، پر بند تھے۔ باہر آنے والوں سے آنے والے ریاست حیدر آباد کے ملازمین کا اعلٰی ذاتوں سے تعلق ہونا ضرور ی تھا۔ یہ ریاست نظام سے شروع ہوکر نظام کی ذات پر ختم ہوجاتی تھی۔
نظام کی قیام پاکستان کے لئے خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے مسلم لیگ حیدرآباد میں کبھی قائم کرنے نہیں دی تھی۔ مسلم لیگ چونکہ راجوں مہاراجوں کی پارٹی تھی اس لئے مسلم لیگ کبھی اس پر معترض بھی نہیں ہوئی تھی بلکہ ہمارے دانشور نظام کی سخاوت اور اعلی ظرفی کے گن گایا کرتے تھے ۔ ان دانشوروں میں علامہ اقبال سر فہرست تھے۔
حیدر آباد ایک فیوڈل ریاست تھی جو اپنی عوام پر ہر طرح جوروستم روا رکھتی تھی۔ فیوڈل روایات اور طرز زندگی کو اسلام کے نام پر قائم رکھنا اس ریاست کا طرہ امتیاز تھا۔ حیدرآباد دکن کی جاگیردار انہ ریاست اور نظام کی تعریف کرنے والے دانشور وں کی عقل و فکر کا ماتم ہی کیا جا سکتاہے ۔ آج اکیسویں صدی میں جب ہر طرف جمہوریت اور انسانی حقوق کا شور بپا ہے اس وقت قرون وسطی کی جاگیر شاہی کے گن گانے والے یا تو علمی اورعقلی طور پر فارغ ہیں یا بددیانت ۔۔
♥