نیلم احمد بشیر
آج آخری روزہ تھا، افطاری کا وقت ہونے ہی والا تھا۔ نوری مسجد کے بڑے سے صحن میں قرآن شریف پڑھنے کے لئے آئے ہوئے طالبعلم، دھلی ہوئی اینٹوں والے فرش پر منظم انداز میں قطاریں بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ شام ڈھلنے کا انتظار کٹھن سے کٹھن تر ہوتا جارہا تھا۔ مسجد کے میناروں سے سبز روشنی کی پوتر لہریں پھوٹتے ماحول کو پاکیزہ بنا رہی تھیں۔ تھکے ماندے پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹتے بہت خوش تھے۔ صاف ستھری چٹائیوں پر بیٹھے روزہ دار بچوں کا خوانوں میں سجی مختلف قسم کی اشیائے خورد و نوش کو دیکھ دیکھ کر دل للچانے لگا۔
مولوی حشمت نے بھی انواع و اقسام کی چیزیں دیکھیں تو ان کے منہ میں پانی آگیا، انہوں نے جلدی سے تھوک نگلنے کی کوشش کی اور خشک زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوئےمنہ ہی منہ میں ورد کرنا شروع کردیا۔ ۔ ۔“فبای الاء ربکما تکذبن۔۔۔تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔” پھر وہ بڑبڑائے “اے اللہ! تو کتنا مہربان ہے۔ تو نے ہمیں کیسی کیسی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں۔” یہ کہہ کر انہوں نے ہاتھ پھیلا کر دعا کی اور آسمان کی طرف محبت سے تکنے لگے ۔پیتل کے ایک بڑے سے طشت میں پکوڑے، سموسے، جلیبیاں رکھی تھیں اور دوسرے میں چاٹ، دہی بھلّے جو ماحول میں اپنی اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلا رہے تھے۔
اچانک مسجد کے صدر دروازے سے ایک شخص اپنا بچہ لئے اندر داخل ہوتا دکھائی دیا۔ “آؤ آؤ بھائی عبد الرحمن۔۔۔!”مولوی حشمت نے خندہ پیشانی سے اسے دعوت دی۔ عبد الرحمن راج مزدوری کا کام کیا کرتا تھا اور اکثر مسجد میں چھوٹی موٹی مرمت بلا معاوضہ کردیا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا پانچ سال کا ننھا بیٹا عبدالغفور بھی تھا جو کبھی کبھار سیپارہ پڑھنے مسجد آتا رہتا تھا ۔ “نہیں مولوی صاحب۔۔۔! اس وقت میں جلدی میں ہوں، شیخ صاحب کے یہاں نیاز کی دیگیں پکوانی ہیں۔ اس کی اماں بھی وہیں کام پر گئی ہے۔ آپ عبدالغفور کو افطاری کروا دیں اور پھر اسے سبق بھی دے دیں میں بعد میں آکر اسے لے جاؤں گا۔” عبدالرحمن نے مؤدبانہ لہجے میں کہا اور سلام کرکے رخصت ہونے سے پہلے ایک تھیلا انہیں تھما دیا۔
“یہ کیا ہے بھائی۔۔۔؟” مولوی صاحب نے پوچھا “پھل ہیں ۔۔۔ بہت خاص اور تازہ۔۔۔ آج ہی میرا بھانجا سوات سے لے کر آیا ہے تو سوچا آپ جیسے نیک روزہ دار کی خدمت میں پیش کروں تو شاید اللہ تعالی مجھ پر کرم فرما دیں۔۔۔ میرے ٹبر کے لئے دعائے خیرضرور کرنا مولوی صاحب۔” عبد الرحمن کے جانے کے بعد مولوی حشمت نے پھلوں والا تھیلا کھول کر دیکھا تو منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔۔ “واہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔کس قدر مزے کی خوشبو ہے۔ ” اندر بڑے رسیلے، رنگ دار، ذائقہ دار، پھولے پھولے بگو گوشوں کو دیکھا تو لگا وہ قیمتی جواہرات کی طرح دمک رہے ہیں ۔ “واہ اللہ جی ۔۔۔رمضان المبارک میں آج تو نے کیسا خالص جنت کا پھل مجھے عنایت کیا ہے۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے“۔
مولوی صاحب نے صبر سے بیٹھے ہوئے بچوں پر نظر دوڑائی تو ان کی نگاہ عبدالغفور پر جا کر ٹک سی گئی۔کس قدر پیارا بچہ تھا وہ۔ انہوں نے اسے غور سے دیکھا، گورا چٹا رنگ، پھولا پھولا چہرہ، معصوم آنکھیں۔ انہیں لگا جیسے اچانک پنے بچپن میں پہنچ گئے ہوں۔ بچپن میں وہ خود بھی تو کچھ ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ پیارا سا، گگلو مگلو ۔ ۔ ۔ سارے محلے دار، رشتہ دار انہیں گود میں اٹھا کر پچ پچ کرتے کلے نوچتے نہ تھکتے تھے۔ اماں ابا سیپارہ پڑھوانے کو مسجد بھیجتے تو بڑے مولوی صاحب اس سے بہت لاڈ پیار کرتے۔ وہ ان کی لال لال مہندی لگی داڑھی سے کھیلتا، کبھی اس کے موٹے پیٹ میں گدگدیاں کرتا تو وہ بھی جو اباً اسے چھڑنے سے باز نہ آتے ۔ خوب ٹٹولتے، چوم چوم کر بے حال کر دیتے۔ جب ننھا حشمت بے حال سا ہونے لگتا تو اس کے چوتڑوں پر دو ہتڑ مار کر اسے بھگا دیتے اور کہتے: “چل بھاگ یہاں سے بدمعاش کہیں کا” ۔
ایسا کہتے ہوئے ان کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک آ جاتی۔ ایک روز یونہی کھیل تماشہ، دھول دھپا کرتے ہوئے بڑے مولوی صاحب نے اپنی پگڑی کھولی اور اس میں سے ایک دو ٹافیاں نکال کر ننگے طالب علم کے منہ میں تھونس دیں، جب وہ کھا گیا تو پاس سے رکھا ہوا ۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ سے بھرا ہوا بڑا سا تھیلا اٹھایا اور اس کے اندر جھانکنے لگے۔ انہیں صبح ہی ان کا کوئی عقیدت مند یہ تحفہ دے گیا تھا انہوں نے بڑی احتیاط سے ایک موٹا تازہ کیلا چھیلا اور اسے دھیرے دھیرے حشمت کے منہ میں گھسانے لگے۔ حشمت ہنس دیا تو وہ بھی ہنس پڑے اور کہنے لگے “کھا لے کھالے بدمعاش۔ یہ جنت کا درخت کا پھل، اللہ کی نعمتوں میں سے ایک جنت کے باغات میں پھلوں کے بہت سے درخت ملیں گے، جس سے اہلِ ایمان اور اللہ کے پیارے پھل توڑ توڑ کر کھائیں گے۔ حشمت نے ایک اور کیلا مانگنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیا تو انہوں نے اس کے سر پر ایک چپت لگائی اور بولے “او بھوکے ندیدے۔۔۔اور کتنے پھل کھائے گا؟ تیرا پیٹ ہے کہ کنواں کم بخت بھرتا ہی نہیں“۔
یہ کہہ کر مولوی صاحب نے اسے گدگدانا شروع کر دیا۔ “بس ایک اور دے دیں نا۔۔۔“مولوی صاحب نے اسے گھور کر دیکھا اور بولے “تجھے جیسے بے صبروں کو پھل نہیں ملتا ۔۔۔صبر کا پھل ہی میٹھا ہوتا ہے۔۔۔غور سے سن: مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ دوزخ کی نچلی تہوں میں خوفناک آگ کے شعلے دہکتے اور بھڑکتے ہیں۔ اس آگ کی طاقت سے بہت سے زقوم کے درخت نمو پاتے اور پھل دیتے ہیں۔ یہ کڑوے کانٹے دار، کسیلے، بدبودار درخت روزِ آخرت کو گناہ گاروں کی بھوک مٹانے کو تیار ملیں گے۔ ان کے پھل شیطانوں کے ننھے ننھے سروں کی صورت لٹکتے اور ہمکتے ہیں۔ وہ آنے والوں کے انتظار میں کب سے کھڑے ہیں“۔
حشمت نے پھر ضد کی تو مولوی صاحب نے تھیلا اٹھایا، سنبھل کر پلنگ پر چڑھے اور لپک کر تھیلے کو چھت پر لگے پنکھے کے راڈ سے لٹکا دیا ۔ پنکھا بند تھا مگر حشمت نے جب اوپر نظر دوڑائی تو وہ اسے گول گول دکھائی دیا۔ کیلوں، سیب، آڑو اور انگوروں سے بھرا تھیلا حشمت کے ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو کر رہ گیا۔ افطاری کا سائرن بجا تو مولوی حشمت چونکے اور بچپن کی یادوں کے نگر سے باہر نکل آئے۔ بچے بڑے سبھی نے ٹھنڈے میٹھے شربت پی کر کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور اپنے اللہ نعمتوں سے اپنے پیٹوں کو بھرا۔ نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد مسجد قدرے سنسان ہو گئی۔ مولوی حشت نے سوچا کیوں نہ عشاء کی نماز سے پہلے کچھ دیر آرا م کر لوں۔ روزے کی نقاہت سے ابھی طبیعت مکمل طور پر باہر نہ ہوئی تھی۔ بگوگوشوں والا لفافہ ساتھ لئے استراحت کی غرض سے اوپر والے کمرے کی طرف چل دیئے اور جا کر بستر پر ڈھیر ہو گئے۔
ابھی انہیں خراٹے لیتے کچھ پل ہی گزرے ہوں گے کہ ایک آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ انہوں نے جھٹ آنکھ کھولی، کمرے میں گو کہ نیم تاریکی سی تھی مگر پھر بھی انہیں ایک کونے میں کھڑا ننھا عبدالغفور روتا ہوا نظر آ گیا۔ ” ارے۔۔۔۔کیا ہوا؟ تم گھر نہیں گئے ۔ ۔ ۔ ؟؟” انہوں نے پیار سے اسے پچکارا “ابو مجھے ابھی تک لینے ہی نہیں آئے۔” معصوم بچے نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا “اچھا۔۔۔؟ لینے نہیں آئے تو کوئی بات نہیں۔ آ جائیں گے۔ تم ادھر آ کر میرے پاس لیٹ جاؤ۔” حشمت نے اسے گھسیٹ کر اپنے قریب کر لیا اور بستر پر اس کے لئے جگہ بنانا شروع کر دی۔ عبدالغفور مولوی صاحب کے ساتھ لیٹا تو اسے بھی تحفظ کا ایک احساس ہونے لگا۔ اس نے دبک کر آنکھیں بند کر لیں اور سونے کی کوشش شروع کر دی۔
مولوی حشمت نے ننھے سے خوبصورت بھرے بھرے معصومیت سے مہکتے وجود کو اتنا قریب پایا تو انہیں لگا کہ جیسے وہ بھی ایک رسیلا، تروتازہ بگو گوشہ ہو۔ اس کے پاس ہونے کا احساس کتنا نرم گرم طمانیت بخش تھا۔ مولوی نے بے اختیار اس کے تن بدن پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنا شروع کر دیئے اور انہیں اپنے جسم میں ایک عجیب سی توانائی بھرتی محسوس کی۔ ان کا پوررا جسم یوں تن گیا جیسے ان میں کوئی سما گیا ہو اور وہ اس کے آ گے بے بس اور بے اختیار ہو۔ بے قابو اور بدحواس ہر کر ان کا جی چاہا اس رسیلے بگو گوشے میں فوراً ہی دانت گاڑ دیں مگر انہوں نے دھیرج سے پہلے اسے چھوا، ٹٹولا، محسوس کیا اور پھر رس چوسنے کے بعد مزے لے لے کر گودہ کھانا شروع کر دیا۔
اف کیا ذائقہ دار پھل تھا، وہ ندیدوں کی طرح وہ اسے پورا ہی ہڑپ کر گئے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی زبان سے یہ کلمات بھی نکلتے رہے: “بدمعاش ، بے ایمان۔۔۔تو میرا ایمان خراب کرنے آیا تھا۔۔۔اچھا۔۔۔؟” ان کے لبوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی اور انہوں نے بگو گوشے کے پرخچے اڑا دیئے۔ عبدالغفور کے گلے سے گھٹی گھٹی چیخیں اور خر خر کی آوازیں آنے لگیں تو مولوی حشمت نے اس کے نرخرے پر ہاتھ رکھ کر اسے زور سے دبا دیا۔ آوازیں اب دبنے لگی تھیں اور پھر ایک نقطے پر آ کر بالکل ہی خاموش ہو گئیں۔ طوفان تھم گیا ۔ پھر اسے نوچا کھسوٹا، بے جان بدن اب بے معنی ہو چکا تھا۔ مولوی کو اونگھ آ گئی مگر پھر یکایک سیڑھیوں پر سے کسی کے اوپر چڑھ کر آنے کی آوازیں آئیں تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھے اور دروازے پر چٹخنی چڑھا دی، شاید کوئی انہیں عشا کی اذان کے لئے بلا رہا تھا۔ “تم چلو۔۔۔میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔”
مولوی حشمت نے اسے تسلی دے کر واپس بھیج دیا اور سوچنے لگا اب کیا کیا جائے؟ انہوں نے جلدی سے بگوگوشوں والا بڑا سا تھیلا خالی کیا۔ پھر تکئے کے خلاف میں ننھے بگوگوشے کو ٹھونسا اور تھیلے سے گرہ لگا کر پنکھے کے راڈ سے باندھ دیا۔ کم از کم یہاں فوری طور پر تو کسی کی نظر پڑنے کا امکان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے تسلی اور سکون سے اذان دی اور باجماعت نماز بھی پڑھائی۔ رمضان شریف ختم ہو چکا تھا ۔ نمازِ عشا کے بعد عبدالغفور کی ڈھنڈیا پر گئی۔ اس کے اماں باوا باؤلے ہو کر اسے ہر جگہ ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوئے۔ دوسرے نمازیوں نے بھی مسجد اور ارد گرد کے گھروں کا کونہ کونہ چھان مارا۔
بالآخر وہ مل ہی گیا۔ پولیس نے جب مولوی حشمت کو ہتھکڑی لگائی تو وہ پرسکون نظر آتا تھا۔ اس نے بغیر کسی تاسف یا احساس ِ جرم کے اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ “دیکھئے جناب ۔۔۔رمضان مبارک ختم ہو گیا ہے ، شیطان اب آزاد ہے، آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہ کتنا طاقتور اور سرکش ہے۔ اس کی زور آوری کے آگے بھلا مجھ جیسے ملوک بندے کی کیاطاقت ہے؟ سچ پوچھیں تو مجھے تو خود سمجھ نہیں آ یا کہ ہوا کیا ہے؟ مجھے تو ہوش ہی نہیں تھا۔ ۔۔سمجھیں نا؟” دوزخ میں اگنے والے زقوم کے درختوں پر لٹکے ہوئے پھلوں میں ایک نئے سر کا اضافہ ہو چکا تھا۔
♥