جمیعت اہل حدیث ہند کا لشکر طیبہ کو سلفی ماننے سے انکار

                                                                             


اصغر علی بھٹی ۔مغربی افریقہ


         چند سال ہوئے ایک بہت ہی معروف پاکستانی نژاد کنیڈین عالم دین ڈنمارک  کے کیپیٹل میں وارد شہر ہوئے ۔مریدین کی طرف سے والہانہ استقبال کیا گیا۔ اگلے دن چیریٹی پروگرام میں فنڈ رائزنگ تقریب کا اہتمام تھا جس میں ملک کی ایک نیشنل وزیر صاحبہ بھی مدعوتھیں۔ اسی شام ایک معروف ٹی وی پروگرام میں موصوف کا ایک انٹرویو  بھی تھا۔اینکر جو بظاہر پرجوش خطابت کے سحر میں سر دھنتی ہوئی مسحور نظر آرہی تھی اُس نے تمام تر صحافتی اداب کے ساتھ ایک ویڈیودکھانے اور اس پر تبصرہ چاہنے کی اجازت طلب کی جو فاتحانہ انداز میں عطا کر دی گئی ۔

مگر کلپ ختم ہونے تک موصوف کے چہرے پرپسینے کے قطرے اور پریشانی کی سلوٹیں جگہہ بنا چکی تھیں چنانچہ خلاف معمول وضاحت بہت دھیمے اور’’ دراصل بات یہ ہے کہ  ‘‘کےالفاظ سے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نقشہ بدل گیا۔انٹرویو بمشکل تمام ہوا اگلے دن کے اخبارات میں ان موصوف کی ایک دومنہ والی فوٹو شائع ہوئی جو ایک طرف آگ اور دوسری طرف پانی پھینک رہی تھی۔اگلےچند گھنٹوں  میں وزیر صاحبہ کی تقریب میں شرکت سے معذرت سامنے آئی ۔پھرتقریب کے کینسل ہونے کی خبر جاری ہوئی اور پھر موصوف کو ملک چھوڑنے کا پروانہ بھی تھمادیا گیا۔

حقیقت یہی ہے کہ  9/11 کے بعد سےبیرون ملک تبلیغ کے لئے جانےوالے کم و بیش مبلغین حضرات کو ایسی ہی پریشان کن صورت حال سے گزرنا پڑتاہے کیونکہ ہم نےبھی تو ایرپورٹ کے اس طرف  اور اُسطرف کے لئے علیحدہ علیحدہ سے بیانیے ترتیب دئیے ہوئے ہیں۔۔ ڈنمارک کا یہ واقعہ مجھےمرکزی جمیعت اہل حدیث ہند کی حالیہ پریس ریلیز پڑھ کر یاد آیا ہے۔ ملک میں جناب حافظ سعید صاحب ،مولانا امیر حمزہ صاحب ،لشکر طیبہ،مرید کے کا اجتماع اور غزوہ ہند کانفرنسز وغیرہ وغیرہ کےمقام و مرتبہ پر کچھ کہنے  سننےکی ضرورت نہیں  جبکہ مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند  جو کہ جمیعت اہل حدیث پاکستان کی والدہ ماجدہ  صاحبہ ہیں نے اپنےدہلی سے شائع ہونے والے 15روزہ جریدے ترجمان کی 16 نومبر2018 کی اشاعت میں حکومت ہند کی  پلول ہریانہ کی ایک مسجد کے متعلق   دہلی اقلیتی کمیشن   کی سرکاری رپورٹ  پر حیرت اور غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پریس ریلیز کے ذریعہ لشکرطیبہ کو نہ صرف دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے بلکہ اس سےمتعلقہ تمام اہل حدیث علماء اور ممبران کو سلفی ہی ماننے سے انکار کردیا ہے۔

بلکہ مزید فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو لشکر طیبہ  یا حافظ سعید یا مولا نا امیر حمزہ  وغیرہ کو سلفی یا اہل حدیث مانتا ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دار اور دل آزار شخصیت ہے۔زیر عنوان ’’مرکزی جمیعت کی پریس ریلیز ۔ ذیلی عنوان ایک غلط فہمی کا ازالی  دہشت گردی کاکوئی دین و مذہب نہیں /مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند  دہلی 4 نومبر 2018   ۔ ہریانہ کی ایک مسجد سے متعلق  دہلی اقلیتی  کمیشن کی شائع رپورٹ کے اس حصہ پر سخت حیرت و افسوس کا اظہار کیا گیا ہے جس میں شعوری  یا غیر شعوری طورپر دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کو سلفی مکتب فکر سے منسوب کیا گیا ہے ۔

یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور افسوس ناک بات ہے اس سے کروڑوں امن پسند محب وطن اور انسانیت دوست لوگوں کی دلآزاری ہوئی ہے ۔ اور جس پر ہر انصاف پسند نالاں و شکوہ کناں ہے۔ اس گروہ کی نسبت سلفیت کی طرف کی گئی ہے جس کا فکری و عملی اعتبار سے سلفیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی سلفیان عالم اس قسم کے لوگوں کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان کے فکر وخیال جداگانہ بلکہ مخالفانہ و متضاد ہیں ۔مذکورہ غلط فہمی کی تشہیر اقلیتی کمیشن جیسےمئوقر ادارے کے ذمہ دار کی جانب سے ہوئی ہے جس کے سلسلہ میں جمیعت کو یقین ہے کہ غیرشعوری طور پر غیر متعلق بات یعنی کہ لشکر طیبہ والے سلفی ہیں  معرض بیان میں آگئی ہے ۔

چنانچہ سلفی لوگوں کےاضطراب کے مد نظر یہ وضاحت کرنی پڑی ہے‘‘ ۔ پریس ریلیز میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا گیاہے کہ’’ جو شخص یا تنظیم دہشت گردی کی حمائیت کرتی ہے وہ سلفی نہیں ہو سکتی۔ ۔آج تک دنیاکے کسی بھی ملک میں  چاہے وہ اسلامیہ و یا غیر اسلامی ، سلفی مکتب فکر کے لوگوں نے کسی حکومت کے خلاف احتجاج ،مظاہروں، انقلابی، اور پر تشدد پروگراموں میں نہ تو حصہ لیا اور نہ ہی اس فکر کی کبھی حوصلہ افزائی کی  ہے‘‘۔

سراپا حیرت ہوں کہ نریندر مودی صاحب کی سرکار کچھ بولے تو بول سکتی تھی،عمران خان  صاحب کی گورنمنٹ کچھ سکون کا سانس لینے اور جان چھڑانے کے لئے کچھ بولے تو سمجھ آسکتی تھی مگر یہ کیا مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند  جو والدہ ماجدہ ہے پاکستانی سلفیت کی مگر بارڈر کے اُس پار وہ جہاد،لال قلعہ پر جھنڈا،غزوہ ہند  وغیرہ کے داعیان کے وجود سے ہی منکر ہو گئے ہیں۔دکھ صرف یہ نہیں ہے کہ وطن عزیز میں ہم نے 50ہزار لاشیں اُٹھائی ہیں بلکہ یہ ہےکہ یہ التفات  صرف ہم پر ہی کیوں؟۔ مرکزی جمیعتاہل حدیث ہند  کا بارڈر سے اُس پار کااسلام کچھ اور ہے اور اس پار کا کچھ اور ۔

یہی حال جماعت اسلامی ہند کا ہے ۔یہی حال دارلعلوم دیوبند ہند کا ہے  ۔پاکستان میں  ’’ کشمیر قرار داد مذمت سے نہیں بلکہ ہندو کی مرمت سے آزاد ہو گا‘‘ اور وہاں پر  ’’سلفی مکتب فکر کے لوگوں نے کسی حکومت کے خلاف احتجاج ،مظاہروں ، انقلابی، اور پر تشددپروگراموں میں نہ تو حصہ لیا اور نہ ہی اس فکر کی کبھی حوصلہ افزائی کی  ہے۔‘‘ اور تو اور ابھی ہمارے نئے نئے امیرالمجاہدین صاحب بریلوی  اہل سنت مکتبہ فکرکے  جناب خادم حسین رضوی صاحب اور پیر افضلقادری صاحب  پاکستان کی فوج،پولیس ،عدلیہ  حتیٰ کہ حکومت سب کو یہودی لابی قرار دے کراسلام دشمن بتا رہے ہیں ۔

ایک سپاہی اپنی ڈیوٹی میں بد عہدی کرتے ہوئے اپنے ہی افسر کو گولی مار دے اور عدالت اُسے سزا دےدے تو بھی یہودی لابی اوریہودیوں کی اسلام کے خلاف سازش کا نقارہ بجادیاجاتا ہےیاایک غریب عیسائی عورت کو اگر جرم ثابت نہ ہونے پر رہا کردیا جائے تو’’ یہودی بچہ‘‘ کی حکومت کو گرانے کے لئے سڑکیں چوک چوراہے بند کر دئیے جاتے ہیں کروڑوںاربوں کی املاک کو نظر آتش کر کے یہودی لابی کو سبق سکھایا جاتا ہے مگربریلویوں کے یہی پیر  اور گدی نشین  حضرات بارڈر کے اُس پار اسرائیل کے دورے کرتےاور دعوتیں اُڑاتے اور اسرائیل کی رواداری کے ڈونگرے برساتے نظر آتے ہیں۔

چنانچہ پیر خواجہ افضل نظامی  صاحب جو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء  دہلی  کیاولاد میں سے ہیں اور سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے روحانی سربراہ ہیں۔ آپ 2007 میں ایکوفد میں شامل ہو کر اسرائیل گئے تھے جہاں پہنچ کر آپنے فرمایا کہ وہ خود کو اپنےچچیروں کے درمیان پاکر بہت ہی طمانیت اور فرحت محسوس کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہمیں سمجھتا تھا کہ اسرائیل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہو گی لیکنصورتحال اس کے برعکس پاکر اب میری رائے تبدیل ہو چکی ہے۔

    پیر خواجہ افضل نظامی  کی ہمرکابی میں آستانہ عالیہ خواجہ معین الدینچشتی ( المعروف خواجہ غریب نواز ) اجمیر کے سجادہ نشین خواجہ زین العابدین بھی اسوفد  میں شامل تھے۔ اسرائیل کا دورہ کرنےوالے اس بھارتی مسلم وفد کی سربراہی مولانا عمیر احمد الیاسی صاحب کر رہے تھے۔ جوآل انڈیا آئمہ مساجد ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ یہ تنظیم بھارت کے پچاس لاکھ آئمہ کرام کی واحد تنظیم ہے۔وفد کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر خواجہ افتخار حمد بھی شامل تھے جو بین المذاہب فائونڈیشن کے صدر ہیں۔آپ 2006 میں بھی اسرائیل کے دورے پر تشریف لے جا چکے ہیں۔ اور اسی طرح 2007  اور 2011 میں بھارتی مسلمانوں کے ایک بڑے وفدکے ساتھ اسرائیل گئے۔ محترم اختر الواسع بھی مذکورہ وفد کے اہم رکن  تھے ۔ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ شعبہ اسلامک سٹڈی ہیں۔ایک اور نام جناب محمود الرحمٰن صاحب جو سابق وائس چانسلرعلی گڑھ یونیورسٹی ہیں ۔ آپ بھی اس وفد میں شامل تھے۔

   مولانا عمیر الیاسی صاحب سے جب ایک اسرائیلی صحافی نے سوال کیا کہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنے دورہ اسرائیل کے تناظر میں فلسطینی ایشو کو کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ فلسطینیوں کا ہر مسئلہ اسلام کا بھی مسئلہ ہو بعض غیر جمہوری عناصر مذہب کے نام پر یہودیوں، مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔مولانا الیاسی نے اسرائیل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جمہوری سیاسی اقدار کی رو سے اسرائیل کو مان لیناچاہئے۔مذہبی وجوہ پر کسی ملک کو تسلیم نہ کرنا مناسب فعل نہیں ۔

اس دورہ کے بعداگلے سال 2008 میں مولانا جمیل الیاسی صاحب بھی اسرائیل تشریف لے گئے جہاں آپ نےاسرائیلی صدر شمعون پیریز سے ان کی سرکاری رہائش گا ہ میں ملاقات کی اور انہیںاعزازی خلعت پہنائی۔ان دنوں مولانا آئمہ مساجد تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھے۔مولاناموصوف نے بتایا کہ وہ اسرائیل پہنچنے کے بعد یہ جان کر حیران ہو گئے ہیں اسرائیلی حکومت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتی ہے۔ اور اسرائیل میں اسلامی شرعی عدالتیں تک موجود ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے وفود کے دورہ جات اسرائیل کا یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے۔  دہلی یونیورسٹی کےشعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر توقیر احمد 2013 والے مسلم وفد کا حصہ تھے۔2010 میں اسرائیلی سفیر نے درگاہ اجمیر پہحاضری دی ، پھول چڑھائے اور دعاکی۔ انڈیا میں انڈو اسرائیل سوسائٹی  قائم ہے جس کے سربراہ جناب آصف اقبال صاحب ہیں۔ اسرائیلی سفارت خانے میں افطار پارٹیاں منعقد کرنے کی روائیت انہی نے شروع کی تھی۔

 تحدیث نعمت کے لئے جناب مولانا امیر حمزہ صاحبآپ کا ایک فرمان یاد آرہا ہے کہ آپ جو فرمایا کرتے ہیں کہ’’آج کے دانشوروں نے،نام نہاد روشن خیال مفکروّں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ سبق یاد کرایا ہے کہاے ہمارے آقا انگریز!تو جو یہ کہتا ہے ہم مسلمان تلوار سے محبت کرتے ہیں تو یہ ہمپر الزام ہے ہم تو بڑے پرامن ہے ہیں تلوار سے ہمارا کیاتعلق۔ہمارا اسلام تو پھیلاہی اخلاق سے ہے_ آہ ذلت کا اس قدر عروج___

جی ہاں ہونا ہی چاہیئے تھا۔اس ہندو کے غلام بن گئے کہ جسے باہر سےہم نے حملہ آور ہوکر ایسا پیٹا کہ محمد بن قاسم کو دیوتا ماننے لگ گئے۔غزنوی نےبار بار اس کا سر توڑا۔بابر نے پانی پت میں رانا سانگھا کی سانگھیوں کو چیرڈالا۔اس وقت کہ جب ہم ہزاروں میں تھے اور آج کروڑوں میں ہیں اور ذلیل ہیں۔آج غورکیجئے ہندوستان میں کتنی ہی اسلامی تحریکیں ہیں۔مسجدوں اور مدرسوں کا شمار نہیں۔تبلیغی جماعت کا اجتماع30لاکھ تک پہنچنے کو ہے دیو بند کا مدرسہ جس کی لمبائی تین میل ہےسوسال سے علماء بنانے میں مگن ہے۔آہ۔ یہ کیسے علماء ہیں اور یہ کیسے اجتماعات۔

تو اسے مسلمانان ہند___اپنی تبلیغ کا انداز بدل دو___مدرسوں کا نصاب بدل دو____صحیح بخاری کتاب الجہاد اور کتاب المغازی پڑھو_ مشرکوں پر صحابہؓ کے جہادی چھاپے ملاحظہ کرو ان کی گھاتیں تاکو مجاہدین بن کر مومنانہ روش اپنائو‘‘۔ ( اداریہ  مجلہ الدعوۃ مارچ1993صفحہ3لاہور نگران پروفیسرحافظ محمد سعید)تو مولانا ازدیاد علم کے لئے جاننا چاہیں گے کہ اسلام کو امن کامذہب کہنے والے ذلیل  لوگ  ہیں اور ایسا کہنا ذلت کا عروج ہےاور انگریز کی زبان بولنے والے ہیں۔ ہم توتلواریں لے کر پیٹنے والے ہیں،سانگھیوں کو چیرنے والے ہیں اور تلوار ہی چھوڑنے کی وجہ سے ذلیل ہیں وغیرہ وغیرہ کیا یہی اصلی اسلام ہے یا بارڈر کے اُس پا روالاکہ  ’’دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کو سلفی مکتب فکر سے منسوب کیا گیا ہے ۔

یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور افسوس ناک بات ہے اس سے کروڑوں امن پسند محب وطن اور انسانیت دوست لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے ۔اور جس پر ہر انصاف پسند نالاں و شکوہ کناں ہے۔ اس گروہ کی نسبت سلفیت کی طرف کی گئی ہے جس کا فکری و عملی اعتبار سے سلفیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی سلفیان عالم اس قسم کے لوگوں کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان کے فکر وخیال جداگانہ بلکہ مخالفانہ و متضاد ہیں ‘‘   اور مزید  یہ کہ  ’’۔آج تک دنیاکے کسی بھی ملک میں چاہے وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی ، سلفی مکتب فکر کے لوگوں نے کسی حکومت کےخلاف احتجاج ،مظاہروں ، انقلابی، اور پر تشدد پروگراموں میں نہ تو حصہ لیا اور نہہی اس فکر کی کبھی حوصلہ افزائی کی  ہے۔‘‘

One Comment