افغان صدر اشرف غنی کی اسلام آباد آمد اور پاکستان کی طرف سے سلامتی کونسل میں بھارت کی حمایت کو تجزیہ نگار ، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)کی شرائط کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔یاد رہے کہ بین الاقوامی ادارے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ابھی گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہےاور ہر تین ماہ بعد اس پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
افغان صدر اشرف غنی وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے پاکستان جانے سے ہچکچا رہے تھے۔ ان کے اس دو روزہ دورے کے دوران سیاسی، تجارتی، اقتصادی، مصالحتی اور سکیورٹی امور پر مذاکرات ہوں گے۔
افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی اسلام آباد پہنچا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس وفد میں افغان وزراء، مشیران، سینئر حکومتی اہلکار اور تاجر بھی شامل ہیں۔
افغان صدر کے سن دو ہزار چودہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ اُن کا پاکستان کا تیسرا دورہ ہے۔ پہلے دو دورے انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ ہی عرصے کے اندر اندر کیے تھے لیکن بعد ازاں وہ اسلام آباد حکومت سے ‘ناراض‘ ہو گئے تھے۔ ان کا پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان میں بم دھماکے کرنے والے افغان طالبان کو پاکستان کی طرف سے پشت پناہی حاصل ہے۔
اشرف غنی کے پاکستان مخالف بیانیے کی وجہ سے ہی آج نور خان ایئر بیس پر افغان صدر کا استقبال کرنے کے لیے نہ تو پاکستانی وزیر اعظم وہاںگئے اور نہ ہی ملکی صدر۔ اشرف غنی کا استقبال وزیر اعظم کے مشیر عبدالرازق داؤد نے کیا۔ اشرف غنی کے پاکستان کے پہلے دو دوروں کے دوران صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ افغان حکومت متعدد مرتبہ پاکستان سے یہ اپیل کر چکی ہے کہ وہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین براہ راست امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ میں ایشیا پسیفک گروپ کے پاکستان سمیت پچپن ممالک نے سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کے لیے بھارت کی حمایت کر دی ہے۔ یہ رکنیت دو سال کے لیے ہوگی اور اس کا آغاز سن2021 میں ہو گا۔اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب، سید اکبر الدین نے ایک بیان میں کہا کہ ایشیا پسیفک گروپ نے اتفاق رائے سے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پندرہ ارکان میں سے پانچ مستقل جبکہ باقی دس غیر مستقل ہوتے ہیں۔ مستقل ارکان میں امریکا، برطانیہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔ غیر مستقل ارکان کا انتحاب جنرل اسمبلی کے ممبران میں سے دو سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس رکنیت کے لیے باضابطہ انتخاب اگلے سال جون میں ہوگا۔
بھارت ایک عرصے سے سلامتی کونسل میں اصلاحات اور اس کی مستقل رکنیت کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ پاکستان بھارت کے اس مطالبے کی مخالفت کرتا آیا ہے۔
بھارت کی حمایت میں پاکستان کا موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت نے بارہا بھارت کو مذاکراتکی دعوت دی ہے لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارتی حکومت ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کے لئے بھی سرگرم ہے۔
DW/Web Desk