منیر سامی
یہ ایک انسانی اور عمرانی حقیقت ہے کہ بعض قوموں کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ یہی وہ قومیں ہیں جو خود اپنی تاریخ کو یکسر بھلا دیتی ہیں۔ یا انہیں ایسی جعلی تاریخ سکھائی، سمجھائی جاتی ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ کیسے کیسے کھیل جمائے جاتے ہیں یا ان کے ساتھ ایسے چمتکار کیئے جاتے ہیں کہ انہیں خود اپنی ہی شدھ بدھ نہیں رہتی۔
پاکستان کو بنے اس سال بَہتّر سال ہو جائیں گے۔ اس عرصہ میں پاکستان میں کیسی کیسی عسکری آمریت حکمران رہی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے آپ مندرجہ ذیل سطور پر غور کریں۔ ہم یہاں آپ کو پاکستان میں عسکری آمریت اور ان عسکری آمر وں کے بارے میں کچھ تاریخی حقائق پیش کرتے ہیں جنہیں جھٹلانا، ناممکن ہے۔ ان حقائق پر معروضی نظر ڈالنے کے بعد شاید آپ یہ فیصلہ کر سکیں کہ بحیثیت عوام آپ کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست ان عسکری آمروں کی ہے جنہوں نے آپ پر براہِ راست اور سخت گیری سے حکومت کی ہے۔
جنرل ایوب ؔ خان : ستایئس اکتوبر سنہ ِ 58 ، سے اکیس مارچ سنہ، 69 ، تک۔ یعنی عرصہ دس سال اور پانچ ماہ۔
جنرل یحییٰ ؔ خان : اکیس مارچ سنہ 69 ، سے بیس دسمبر سنہ، 71 ، تک ۔ یعنی عرصہ دو سال اور نو ماہ ۔
جنرل ضیا الحقؔ: یکم مارچ سنہ 76 ، سے سترہ اگست 88 ، تک۔ یعنی عرصہ بارہ سال اور تین ماہ۔
جنرل مشرف ؔ: بیس جون سنہ 2001 ، سے اٹھارہ اگست سنہ 2008 ِ تک۔ یعنی عرصہ سات سال اور ایک ماہ۔
یہ سب کُل ملاکر تقریباً بتّیس سال اور چھ ماہ بنتے ہیں۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے بہتّر سالوں میں سے تقریباً ساڑھے بتیس سال تھوڑے تھوڑے عرصہ کے فرق سے تقریباً ساڑھے بّتیس سال براہ راست عسکری حکمراں براجمان رہے ہیں تو اس ملک میں جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی۔
با خبر مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں براہِ راست عسکری آمریتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمرانی پر بھی عسکر ی اداروں کی چھاپ رہی ہے، جس کی شہادت مختلف صوبوں میں نظم و نسق اور قیامِ امن کے بہانوں سے سیاسی حکمرانی پر نیم عسکری ادارے مسلط ہونا ہے۔ اس کی اہم ترین مثال سندھ صوبہ، اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں طویل عرصہ سے رینجرزؔ کا نفاذ، اور پاکستان کے بلحاظِ رقبہ سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں عسکری اور نیم عسکری چھائونیوں کا استعمال شامل ہے۔ اور اب سابقہ قبائلی علاقوں اور وزیرستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
معروضی مصرین کی یہ رائے بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان کے عارضی جمہوری ادوار میں میں بھی عسکری طبقات بالواسطہ یا خفیہ دخل دیتے رہے ہیں۔ ان عرصوں میں پاکستان کی عدلیہ کو بھی غیر آئینی اقدامات، کو قانونی تسلیم کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گو یہ بھی ہوا ہے کہ بعض اعلیٰ عدالتوں نے حکومت پر عسکری قبضہ یا دخل اندازی کو غیر آئینی یا غیر قانونی قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد والی پاکستانی نسل کو شاید ہی یہ اندازہ ہو کہ ، یہ پاکستان میں غیر آئینی اقدامات یا عسکری مداخلت ہی تھی جس کے نتیجہ میں، پاکستان کا اکثریتی صوبہ، مشرقی پاکستان ایک خونی جدو جہد کے بعد پاکستان سے آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں شاید واحد واقعہ ہو کہ جہاں کسی ملک کی اکثریتی آبادی وہاں کی اقلیت سے علیحدہ ہو کر نیا ملک بنالے۔ ہماری موجودہ نسل کو اس تاریخ سے بے بہرہ رکھا جارہا ہے اور اسے یہ سکھایا جارہا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان کے عوام وہاں کے رہنماوں کی غداری اور بھارتی مداخلت کے نتیجہ میں پاکستان سے الگ ہو گئے تھے۔
مبصروں اور سیاست پر نظر رکھنے والے دانشوروں کی یہ فکر بھی اہم ہے کہ فی زمانہ پاکستان ایک غیر مرئی عسکری دبائوکی زد میں ہے۔ عمرانؔ خان کی حکومت یا تو اپنی مرضی سے یا جبراً عسکری اداروں کے طابع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اطلاعات پر ایک آمرانہ نظام مسلط ہے جس میں ہر اس خبر کو دبایا جا رہا ہے، جس سے عسکری طبقات پر کوئی حرف آتا ہو۔ عدلیہ کے وہ منصف جو عسکری طبقات کی مداخلت کی پکڑ کر رہے تھے، خود رکیک الزامات کی زد میں ہیں اور ان کی برطرفی کے اقدامات کیئے جارہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عدلیہ جس کا منصب غیر آئینی اقدامات کی پکڑ کرنا ہے ، ایک بار پھر گویا، نظریہ ضرورت والے فیصلے کر رہی ہے۔
گزشتہ فوجی آمریتوں میں سیاسی اور انصاف حقوق کے عمل پرستوں کو غداری کے الزامات کے ساتھ ساتھ قید و بند اور صعوبتیں اٹھانا پرتی تھیں ۔ لیکن اب بیسیوں، سینکڑوں، یاہزاروں کی تعداد میں لا پتہ کر دیئے جاتے ہیں۔ بعضوں کی لاشیں کہیں پھینک دی جاتی ہیں یا وہ ترکِ وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ خون کے وہ دھبے جو اب سے پہلے مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں پر لگے تھے، اب پورے پاکستان کو دا غ دار کر رہے ہیں۔
ہاں یوں بھی ہے کہ اب بھی بعض جنونی، غیر آئینی مداخلت کی مزاحمت کررہے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ ،’ ’یونہی الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق۔ نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی۔ ‘‘
♦