جب آپ دلی شہر میں کتابوں میں پڑھے تاریخ کے گوشوں کو تلاش کرکے مطمئن نہ ہوں اورکچھ اور تلاش کرنے کے متمنی ہوں تو ایک اور نام سننے کو آتا ہے جو میری طرح آپ نے بھی کبھی پہلے نہ سنا ہو۔ ٹیکسی والا کہتا ہے ًجنتر منتر دیکھئے صاحب۔ یہاں بہت گورے لوگ دیکھنے آتے ہیںً۔ جنتر منتر کا نام سنتے ہی پہلا خیال تو کسی جادو نگری کا آتا ہے جہاں نظروں کے سامنےدیکھتے ہی دیکھتے چیزیں چھومنتر سے غائب ہو جاتی ہوں۔ مگر دراصل یہ ریاست جے پور کے مہاراجہ جے سنگھ دوم کی۱۷۲۴ء میں شہنشاہ ارنگزیب کے زمانے میں بنائی ہوئی پانچ رصد گاہوں میں سے ایک ہے جو زمانے کے دھول میں دبنے سے بچ گئی ہے ۔
جنتر منتر کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اس دور کے پنڈت ،جوتشی اورعلم نجوم کے ماہرین بیٹھے سورج، چاند ستاروں کی چالوں پر نظر رکھ کر اہل زمین کومطلع کرتے تھے کہ کب کونسا ستارہ کس برج میں داخل ہوا، کب سورج دیوتا یا چندر ماتا گرہن کی چادر اوڑھنے والے ہیں ۔ یہاں بیٹھنے والے یہ بھی بتاتے تھے کہ ستاروں کے سفر سےزمین پر رہنے والوں کی قسمت کب پھوٹنے والی ہے یا ان کا ستارہ عروج پر کب ہوگا۔ مہاراجہ جے سنگھ نے برج بھاشا کو خوب فروغ بھی دیا تھا۔ اورنگزیب عالمگییر نے اس نابغہ کوسوائی کا خطاب دیا جبکہ محمد شاہ نے سرمد راجا ہند کے خطاب سے نوازا تھا۔
دلی کے لال قلعے میں گھومتے ہوئے ایک طاقچے پردو ٹائم پیس کی گھڑیاں بھی رکھی نظر آتی ہیں۔ ان عام سی گھڑیوں کو لال قلعہ کے اندر دیکھ کر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کوئی پوچھے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک گھڑی چین کے ایک وفد نے اور دوسری گھڑی برطانیہ کے وفد نے شہنشاہ اورنگزیب کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کی تھیں۔ ان گھڑیوں کی آمد کے بعد جنتر منتر کی سورج اور تاروں کی گردش سے دن رات کے پہر اوراوقات معلوم کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
جنتر منتر نے بھی بادشاہوں اور امراء کی ڈیوڈھیوں میں بنے نوبت خانےخاموش کر دئےتھے۔ اس سے قبل سکندر اعظم کے زمانے سے چلے آئے نوبت خانے ہی دان رات کے اوقات بتانے کے واحد زرائع تھے۔ نوبت خانے میں ایک خاص کٹورا جس میں سوراخ کرکے پانی سے بھرے برتن میں رکھا جاتا تھا۔ کٹورے میں بنے سوراخ سے برتن سے پانی جب بھر جاتا اور کٹورا ڈوب جاتا تو ایک گھڑی پوری ہوجاتی اور آٹھ مرتبہ ڈوبنے پر ایک پہر مکمل ہوجاتا ۔ ایسے اٹھ گھڑیوں کا ایک پہر اور دن اور رات چار چار پہروں میں منقسم تھے۔ بادشاہوں اور امراء کے جن ڈیوڈھیوں پر یہ انتظام ہوتا ان کو نوبت خانہ اور پہر کے مکمل ہونے پر بجائے جانے والے گجر کو نوبت کہتے تھے۔ کٹورا کے پہلی بار ڈوبنے پر ایک اور دوسری بار پر دو گھڑی بجتی آٹھویں بار ڈوبنے پر گجر بجا کر پہر کے مکمل ہونے کا اعلان کیا جاتا اور پھر سے گھڑی ایک سے بجنا شروع ہوجاتی تھی ۔ ہم آج بھی وقت کے اظہار کے لئے بجے کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسا کہ دوپہر کے بارہ بجے یا رات کے آٹھ بجے وغیرہ۔
مگر یہ سب صرف دہلی،لاہور، اگرہ اور چند ریاستوں کے شاہوں، نوابوں اور سلاطین کے محلات کی حد تک تھا وگرنہ ہندوستان کے طول و عرض میں وقت کا تعین دن کو آسمان پر سورج کی سمت اور رات کو تاروں کو دیکھ کر ہی کیا جاتا تھا۔ مرغ کی بانگ ہی عامتہ الناس کی گھڑی ، گجر اور نوبت تھی۔ مرغ اپنے جسم میں موجود کیمیائی عوامل کی وجہ سے طلوع سحری اور زوال آفتاب کے اوقات میں بانگ دیتا ہے۔ یہ بانگ طلوع سحر کی نمو پر نکلتی ہے اور وقفوں سے صبح صادق تک جاری رہتی ہے ۔ یہی عمل زوال آفتاب کے ساتھ بھی جاری رہتا ہے۔ مرغ کی بانگ اس کے جسم کے اندر کیمیائی عمل کے نتیجے میں وقوع پزیر ہوتی ہے جو بسا اوقات رات دن کے دورانیےمیں تبدیلی کو محسوس کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے قبل اور بعد از وقت ہونے کا بھی احتمال رہتا ہے۔ مگر قدیم زمانوں میں یہ سحری اور شام کے وقت کو معلوم کرنے کا واحد زریعہ ہونے کی وجہ سے قابل انحصاررہا۔
نوبت خانوں کا گجر گھڑی بن کر انگریزوں کے ہندوستان میں آنے کے بعد چوک چوراہوں پر ایستادہ ہونے کے ساتھ امارت اور شان و شوکت کی علامت بن کر بطورگھڑی کا زیور کلائی میں آگئی۔ گھنٹہ، منٹ اور سیکنڈ میں مزید منقسم ہوکر وقت کی اہمیت اور بڑھ گئی ۔ اب تو گھڑی کا بوجھ کلائی سے اتر کر ہتھیلی میں رکھے موبائل، گاڑی کے ڈش بورڈ اور کام کی میز پر رکھے کمپیوٹر کی سکرین پربراجمان ہوکر ہر لمحہ گزرتے وقت کا احساس دلا تا رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود بانگ دینے والامرغ بھی موجود ہے اور ہمارے ہاں اب تک سحری کے لئے جگانے والے بھی اپنی طرز کے گجر اور نوبت بجاتے پائے جاتے ہیں۔
جنتر منتر اب ایک خالی عمارت ہے جس کےزینے اور بھول بھلیاں ویران ہو چکی ہیں۔ مگر علم نجوم کے نام پرآج بھی ستاروں کے برجوں میں داخلے کی خبر دے کر اپنا کاروبار جاری رکھنے والوں میں کمی نہیں آئی۔ آج بھی جنم پتری اور کنڈلی بنتی ہے اور اپنے مستقبل کے لئے فکر مند لوگ خود اپنی قسمت کے مارے کسی قیافہ شناس کےآگے ہاتھ جوڑے نظر آتے ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ نام نہاد پڑھے لکھے لوگ بھی ٹیلی ویژن سکرین پر حکمرانوں کے مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنے والے کسی خود ساختہ اسٹرالوجسٹ اوربغیر کسی واجبی سی تعلیم کے بھی خود کو ماہر فلکیات کہنے والے کے سامنے دست بستہ نظر آتے ہیں۔ جنتر منتر کی عمارت وقت اور حالات کے ساتھ مخدوش ہوگئی مگرعلم فلکیات کے سائنس کی ترقی کے باوجود ستاروں اور برجوں پر یقین اب بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل میں بھی نظر آتا ہے۔
فلکیات کی طرح موسمیات کا مطالعہ ایک باقاعدہ سائنس کے طور پر مسلمہ ہے۔ موسم کا حال، درجہ حرارت، ہواؤں کا رخ سب اب وقت سے قبل معلوم کرنے کی سہولت موجود ہونے کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی روزمرہ کی زندگی کے کاموں میں توکل، قیافہ اور اندازوں پر ہی اکتفا کرتی ہے۔ بارش اور طوفان کی پیش گوئی کی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں میں بڑی حد تک کمی آنے کے باوجود اپنی قسمت پر یقین کو سائنسی علوم پر فوقیت دینے والے بھی ہر ملک اور معاشرے میں کم نہیں۔
شہر شہر گھنٹہ گھروں کی تعمیر، ہر کلائی کے بعد ہر جگہ گھڑی موجود ہونے کے باوجود اگر لوگ اب بھی بانگ کے لئے مرغ پالتے ہیں اور سحری کے لئے جگانے والوں کا انتظار کیا جاتا ہے تو ایسے میں تمام تر سائنسی ایجادات کی موجودگی میں چاند کی رویت دیکھنے کے لئے رویت ہلال کمیٹی کے نوبت خانے کو قائم رکھنے کی خواہش کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اگر جیب میں رکھے موبائل پر آلارم لگانے کے بجائے صبح مرغ کی بانگ یا سحری پر جگانے والوں کا انتظار کیا جاسکتا ہے تو اس موبائل کے ایپ پر دیکھنے کے بجائے چاند کو بھی گھر کی منڈھیر یا چھت پر چڑھ کر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
♦