لال مسجد کا نظم و نسق سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے سپرد

لال مسجد کے زیر انتظام خواتین کے مدرسے، جامعہ حفصہ کی زمین کے تنازعے کے بعد پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کی مشہور لال مسجد کا نظم و نسق ایک بار پھر سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے سرکاری خطیب کو معطل اور مسجد کمیٹی کو تحلیل کرکے انتظام سابق خطیب کی حمایت یافتہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے سرکاری خطیب کو ہٹانے کا فیصلہ مولانا عبدالعزیز کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد کیا ہے جو جامعہ حفصہ کے لئے مختص پلاٹ واپس لئے جانے کے بعد طالبات کو لے کر لال مسجد آگئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز کی جانب سے جامعہ حفصہ کی طالبات کی درس و تدریس لال مسجد سے ملحقہ حصے میں شروع کرنے پر ان کے بھانجے اور مسجد کے سرکاری خطیب مولانا عامر صدیقی نے اسے انتظامی معاملات میں مداخلت تصور کیا اور ضلعی انتظامیہ کو اس پر کارروائی کی درخواست کی۔

مولانا عامر صدیقی کی درخواست پر ابتدائی طور پر اسلام آباد انتظامیہ نے لال مسجد سے ملحقہ اس حصے جہاں جامعہ حفصہ کی طالبات قیام پذیر تھیں اس کے داخلی راستے کو بند کر دیا۔ اس صورتحال پر جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان نے بیان دیا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے لال مسجد کی طرف جانے والے راستوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا ہے، جس کے باعث سو سے زائد طالبات محصور ہو کر رہ گئی ہیں۔

تنازعہ زیادہ بڑھا تو ضلعی انتظامیہ نے مولانا عبدالعزیز کے دباؤ میں آتے ہوئے نہ صرف سرکاری خطیب کو معطل کر دیا، بلکہ مسجد کمیٹی کو بھی تحلیل کر دیا۔

اگرچہ مسجد کی نئی بنائی جانے والی کمیٹی مولانا عبدالعزیزکی مشاورت سے قائم ہوئی ہے اور اب سرکاری خطیب کی بجائے جامعہ حفصہ کے اساتذہ نماز اور خطبہ جمعہ کے فرائض انجام دیں گے۔ تاہم، تین ماہ تک مولانا عبدالعزیز کے لال مسجد میں داخلے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔

لال مسجد کے معطل سرکاری خطیب مولانا عامر صدیقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’مولانا عبدالعزیز طالبات کو واپس لے جانے پر رضا مند نہیں ہو رہے تھے اور جس انداز سے وہ معاملات کو چلا رہے تھے اس سے امن و امن کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ تھا‘‘۔

انہوں نے تصدیق کی کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انہیں بحیثیت خطیب لال مسجد معطل کر دیا گیا ہے۔ تاہم، ان کے بقول، ’’معاملہ ابھی حل نہیں ہوا؛ اور طالبات کے وہاں ہونے کے باعث تشویش پائی جاتی ہے‘‘۔

مولانا عبدالعزیز کے قریبی ساتھی اور لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے ترجمان احتشام احمد کے مطابق، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علمائے کرام نے معاملے کے حل میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور مولانا عامر صدیقی کے معطل کئے جانے کے بعد اب لال مسجد کے دارلافتا کے اساتذہ نماز پڑھانے کے فرائض انجام دیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ’’ضلعی انتطامیہ کے علمائے کرام کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کے نتیجے میں طالبات کی درس کی کلاسز بدستور آئندہ تین ماہ تک لال مسجد میں جاری رہیں گی، اور اس دوران معاملے کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے گا‘‘۔

احتشام احمد کے مطابق، معاملہ ابھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا، کیونکہ انتظامیہ نے جامعہ حفصہ کے نئے پلاٹ کو واپس لے لیا ہے اور جب تک پلاٹ کا معاملہ حل نہیں کیا جاتا تشویش باقی رہے گی۔

رابطہ کرنے پر، ضلعی انتطامیہ نے بتایا ہے کہ انہیں اس معاملے پر گفتگو کرنے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے بھی معاملے کو حساس قرار دیتے ہوئے مؤقف دینے سے معذرت کی۔

خیال رہے کہ مولانا عبدالعزیز 1998 سے 2004 تک لال مسجد کے سرکاری خطیب رہے ہیں اور 2007 کے لال مسجد آپریشن میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ 2007 میں ہونے والے لال مسجد آپریشن میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مسجد میں مبینہ طور پر پناہ لیے ہوئے عسکریت پسندوں کے درمیان کئی روز تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا، جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیں واقع ہوئی تھیں۔

urduvoa.com

Comments are closed.