پاکستانی فوج میں اعلیٰ سطحی تقرریوں اور تبادلوں کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ وہ اس سے پہلے آئی ایس آئی میں ہی کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہیں اس سال اپریل میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی، جس کے بعد وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔
آئی ایس آئی میں بطور سربراہ واپسی پر وہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی جگہ لیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آٹھ ماہ اس عہدے پر فائض تھے اور اب ان کا تبادلہ بطور کور کمانڈر گجرانوالہ کر دیا گیا ہے۔ دیگر تعیناتيوں میں لیفٹیننٹ جزل ساحر شمشاد مرزا کو جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جزل لگایا گیا ہے، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل عامر عباسی کو کوارٹر ماسٹر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز کو انجینئر ان چیف بنا دیا گيا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا شمار فوج کے ان افسران میں ہوتا ہے جن پر سیاست میں براہ راست مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہ پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے قابل اعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں دو ہزار سترہ میں وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرانے اور پھر پی ٹی آئی کے حق میں الیکشن انجینئر کرانے میں جنرل فیض حمید کا نام بار بار سامنے آتا رہا۔
نومبر 2017میں تحریکِ لبیک نے جنرل فیض کی مدد سے فیض آباد میں دھرنا دیا تھا اور کئی روز تک دارالحکومت اسلام آباد کو مفلوج کر دیا۔ اس موقع پر اشتعال انگیز اور پرتشدد تقاریر کی گئیں جن کا بظاہر مقصد اس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو دباؤ میں لانا تھا۔ آئی ایس آئی نے اس وقت حکومت کو دھرنے کے خلاف کاروائی بھی نہ کرنے دی۔ اس دھرنے کا اختتام چھہ نکاتی معاہدے پر ہوا، جس میں آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیض حمید نے مظاہرین اور حکومت کے درمیان بطور ضامن دستخط کیے۔ بلکہ مطاہرین کو ایک ایک ہزار کے نوٹ بھی تقسیم کیے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ، اگر افوجِ پاکستان کا کوئی بھی فرد سیاست میں شامل ہوتا ہے یا میڈیا پر اثر انداز ہوتا ہے، تو وہ افوج کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ منصب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ افواج کی ذمہ داری آئین میں واضح طور پر درج ہے۔ ’’کہ وہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر پاکستان کا خارجی خطروں یا جنگ کے خطرات کے خلاف دفاع کریں گی، اور قانون کے مطابق شہری اداروں کی مد د کریں گی، جب انہیں اس مدد کی دعوت دی جائے“۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی قیادت کو حکم دیا گیا تھا کہ جرنیلوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کی ہے لہذا ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کی جائے۔ اور یہ محکمانہ کاروائی ہی ہے کہ انھیں ترقی دے کر آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔
DW/Net News
One Comment