کالعدم اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف مہم پر بہت سے سماجی و سیاسی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور سیاست کے لیے مذہب کے استعمال کو خطرناک قرار دیا ہے۔
مذہبی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے دس جون کی رات قوم سے خطاب کے دوران اسلامی جنگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اصحابِ رسول کے حوالے سے نا مناسب الفاظ استعمال کئے۔ اس خطاب پر مفتی تقی عثمانی سمیت ملک بھر کے مذہبی رہنماوں نے تنقید کی اور عمران خان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی مذہبی حلقوں نے اس مسئلے پر حکومت کے خلاف محاذ کو گرم کیا ہوا ہے۔
جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ نے اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھانے کی کوشش کی لیکن اب کئی حلقے کالعدم تنظیموں کی جانب سے اس مسئلے پر ملک گیر مظاہروں کے اعلان پر تشویش کا اظہار کر رہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ان مظاہروں کے باعث ملک میں ایک بار پھر مذہبی مسئلے پر کشیدگی پھیل سکتی ہے۔
کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان، جو اب اہلسنت و الجماعت کے نام سے سرگرم ہے، نے کل بروز منگل اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں پر حکومت کی طرف سے خاموشی نے بھی بہت سے حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار ان مظاہروں کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال سے بھی جوڑ رہے ہیں۔
تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت واضح طور پر ایران مخالف لائن نہیں لے رہی اور یہ مظاہرے حکومت پر دباو ڈالنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” فرقہ وارانہ تنظیموں کے بیرون ممالک سے روابط ہیں۔ سعودی نواز مذہبی گروہ قطر کے امیر کے دورہ پاکستان پر ناراض ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے مسئلے پر کھل کر ایران مخالف لائن لے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف حکومت اقدامات کرنے کی پابند ہے لیکن بعض تجزیہ کار ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں کوحکومت کی جانب سے نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ پہلے بھی مذہب کے سیاسی استعمال سے ملک کی ساکھ بین الاقوامی طور پر خراب ہوئی۔ ”خادم رضوی کے دھرنے کے بعد یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ اب ریاست مذہبی تنظیموں کو سیاست کے لئے مذہبی اور فرقہ وارانہ تنازعات کو استعمال کرنے نہیں دے گی لیکن افسوس ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم کے خلاف کالعدم تنظیمیں مظاہروں کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور عوام کےمذہبی جذبات کو بھڑکا رہی ہیں لیکن ریاست ان کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں ہے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے‘‘۔
تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے مظاہرے حکومتی کنڑول سے باہر نہیں ہوں گے اور نہ ہی وہ ریاستی رٹ کو چیلنج کر پائیں گے کیونکہ اس کے لئے مذہبی رہنماؤں کو سیاسی حمایت نہیں ملے گی۔ معروف تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں مذہبی تنظیموں کو اس مسئلے پر زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ ”میرے خیال میں پی پی پی اور ن لیگ اس مسئلے پر مذہبی جماعتوں کی حمایت نہیں کریں گے اور یہ جماعتیں احتجاج کر کے خاموش ہو جائیں گی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جے یو آئی ایف نے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں شور کیا تھا لیکن پھر وہ خاموش ہو گئی۔‘‘۔
پاکستان میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی جماعتیں مقتدر حلقوں کے اشارے پر سرگرم ہوتی ہیں، جو انہیں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ضیا الدین اس تاثر کوغلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،”ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ اس وقت مقتدر حلقے ان مذہبی جماعتوں کے پیچھے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ سپاہ صحابہ کہ نام ہی مذہبی ہے تو وہ اپنے بھرم کے لئے ایسے مذہبی مسئلے پر بولے گی۔‘‘
تاہم کالعدم تنظیمیں اس مسئلے کو بھر پور طاقت سے اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جب تک عمران خان معافی نہیں مانگیں گے، وہ پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم اس مسئلے پر کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینا چاہیے اور ان کے خلاف بھر پور کارروائی ہونی چاہیے‘‘۔
اس مسئلے کو لے کر کچھ وکلا نے عمران خان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوششیں بھی شروع کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ کے وکیل طارق اسد ایڈوکیٹ نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لئے اسلام آباد کے ایک مقامی تھانے سے رجوع کر لیا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں نے تھانے میں درخواست دے دی ہے اور میں ایف آئی آر درج کرانے کے لئے بھی متعلقہ اداروں سے رابطہ کر رہا ہوں۔ میرا مطالبہ ہے کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے‘‘۔
اس صورتِ حال نے پی ٹی آئی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ پارٹی کے رہنما اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ مسئلہ جلد از جلد حل کرنا چاہیے۔ ”مذہب کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال انتہائی خطرناک ہیں۔ مذہبی تنظیمیں تاک میں رہتی ہیں کہ آپ کوئی غلطی کریں اور اگر آپ کی غلطی دس فیصد ہوتی ہے تو وہ اس کو ایک سو دس فیصد بنا کر پیش کرتی ہیں۔ میرے خیال میں حکومت کوفوری طور پر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے ورنہ کالعدم تنظیمیں ایک ایسے وقت پر سڑکوں پر ہوں گی جب ہم ایف اے ٹی ایف والوں سے بات چیت کر رہے ہوں گے۔ اس سے ملک کو شدید نقصان ہوگا‘‘۔
♦