تبصرہ۔ لیاقت علی
سائمن ولف گینگ فُکس(Simon Woflgang Fuchs) جرمنی کی فریڈبرگ یونیورسٹی میں مشرق وسطی اوراسلامی علوم کے پروفیسر ہیں۔ بین الاقوامی اسلام، مذہبی حاکمیت اورشیعت ان کے مطالعہ اورتحقیق کے خصوصی موضوعات ہیں۔ فچس نے کئی سالوں پرمحیط اپنی تحقیق کو حال ہی میں اپنی ایک کتاب میں شائع کیا ہے۔
ان کی کتاب کا نام ہے: شیعت ۔۔پاکستان اور مشرق وسطی کے درمیان۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں نو آبادیاتی ہندوستان کے آخری دور اوربعد ازاں پاکستان میں شیعت کے پھیلاو اور اس کے فکری اورنظریاتی پہلووں اورجہتوں کے بارے میں کچھ نئے سوالات اٹھائے اورحقایق بیان کئے ہیں۔
شیعہ پاکستان کی آبادی کا کم و بیش بیس فی صد ہیں جو 22 ملین کے قریب بنتے ہیں۔ایران کے بعد کسی بھی ملک میں یہ اہل تشیع کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ فچس کا کہنا ہے کہ دنیا میں جب شیعہ مسلمانوں کا ذکر ہوتا ہے توبیشتر تر لوگ ایرانی شیعوں اور ایرانی انقلاب بارے میں سوچتے اوربات کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کی شیعہ آبادی بھی تمام ترسیاسی اورسماجی حوالوں سے ایک متحرک کمیونٹی ہے اور پاکستان کی سیاست اورسماج میں ایک انتہائی اہم رول کی حامل ہے۔
کتاب کے آغاز میں فچس نے پا کستان بالخصوص پنجاب میں اہل تشیع کو جن نامساعد حالات کا سامنا تھا،ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ 1915 تک موجودہ پنجاب پر مشتمل علاقوں میں ایک بھی شیعہ مسلک کا دینی مدرسہ موجود نہیں تھالیکن قیام پاکستان کے بعد بالعموم اورایرانی انقلاب کے نتیجے میں بالخصوص اس صورت حال میں کیفیتی تبدیلی آگئی اور 2004 میں شیعہ مسلک سے وابستہ لڑکوں کے 374 اورلڑکیوں کے84 دینی مدارس قائم ہوچکے تھے۔ ان مدارس میں لڑکوں کے218 اور لڑکیوں کے55 مدارس پنجاب میں تھے۔
کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے نوآبادیاتی عہد میں شیعہ سنی تضاد اور تناو کو بالخصوص لکھنو کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔فچس نے 1920کی دہائی میں قائم ہونے والی شیعہ تنظیم آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے قیا م اور شیعہ سنی تناو میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔اُ س دورمیں مسلم لیگ، کانگریس اورجمیعت علمائے ہند کے باہمی تعلقات اورمناقشت میں اہل تشیع کی وابستگیوں اورمخالفتوں پر روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں مصنف نے شیعہ اہل علم میں ’اصلاح پسندی‘ اور ’عقل پسندی‘ کے حوالے جو تفریق ابھری اس کو اپنی تحقیق اور بحث کا موضوع بنایا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد شیعہ علمائے کرام میں ابھرنے والی اس تفریق نے اہل تشیع کی سرگرمیوں کو کس طرح اور کس حد متاثر کیا، اس باب میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
کتاب کے تیسرے باب میں فچس نے قیام پاکستان کے بعد ابھرنے والی شیعہ مذہبی قیادت پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں شیعہ مذہبی قیادت علمی اور فکری طور پر کم زور رہی ہے اور اس کمی کو بالعموم لکھنو سے تعلق رکھنے والی شیعہ مذہبی قیادت پورا کیا کرتی تھی۔ مصنف کا موقف ہے کہ پنجاب میں قیام پاکستان کے وقت صرف دو شیعہ دینی مدارس۔۔۔ سرگودھا اور ملتان۔میں قائم تھے۔ مذہبی تعلیم کے محاذ پر یہی کم زور ی تھی جس کی بنا پر پنجاب میں شیعہ مذہبی فکر کی ترقی اور ارتقا ممکن نہ ہوسکا تھا۔ پنجاب کے برعکس لکھنو کے شیعہ دینی مدارس’مجتہد وں کے غول‘ پیدا کررہے تھے۔ اپنے موقف کے حق میں مصنف نے تین شیعہ جرائد ’الحجت‘،’پیام عمل‘ اور المنتظرکے مندرجات کو استعمال کیا ہے۔
کتاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں فچس نے پاکستانی شیعت پر ایرانی انقلاب کے مرتب ہونے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ایرانی انقلاب کی بدولت پاکستان میں شیعت اسلام کی ایک مقامی صوفیانہ اورثقافتی روایت کی بجائے ’وہابیت‘ کی راہ پر گامز ن ہوئی۔ ایرانی انقلاب کے زیر اثرنہ صرف نئی شیعہ سیاسی قیادت ابھری بلکہ فکری اور نظری طورپر بھی صدیوں پر محیط شیعہ عقائد و روایات میں بدلاو کے رنگ نمایاں ہوئے۔
یہ ایرانی انقلاب کا ہی اثر تھا کہ قبل ازیں شیعہ ملک کی کم و بیش سبھی مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں موجود تھے لیکن نئی قیادت نے انھیں ایک علیحدہ فرقہ ورانہ تنظیموں میں منظم و متحد کرنے کے کام کاآغاز کیا۔مصنف نے اہل تشیع کی سیاسی تنظیم میں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، عارف الحسینی اور مفتی جعفر حسین کے رول پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔
پاکستان کے اہل تشیع کی نچلی سماجی پرتیں آج بھی صدیوں پرمحیط روادار، صوفیانہ اور ثقافتی شیعت پر قائم ہیں ایرانی انقلاب کے زیر اثر ابھرنے والی ’شیعہ وہابیت‘ اقتداری سیاست سے وابستہ درمیانے اوراپرمڈل کلاس اہل تشیع کا فکری اور نظریاتی اثاثہ ہے۔